Maktaba Wahhabi

290 - 699
’’اﷲ نے دین کے بارے میں تم پر کوئی تنگی روا نہیں رکھی۔‘‘ ہاں اس دور میں مسلمانوں نے عورتوں کے ستر کے خلاف اتنی آزادی دے رکھی ہے کہ عورتیں اپنے محرم مردوں کے سامنے(ہی نہیں بلکہ سرِ بازار بھی)اپنی پنڈلیاں،کندھے اور سینے کھولے پھرتی ہیں،یہ ایسا معاملہ ہے جس کی شریعت میں کوئی گنجایش ہے نہ اسے ذوقِ سلیم ہی پسند کرتا ہے۔ الغرض ان احادیث سے معلوم ہوا کہ ستر کے معاملے میں عام اجنبی مردوں اور محرم رشتے داروں میں بھی فرق ہے اور عورت محارم کے سامنے سر،منہ،گردن اور پاؤں کھول سکتی ہے۔[1] لیکن اجنبی کے سامنے اس کا سارا جسم بہ شمول ان اعضا کے ستر ہے،جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا رہی ہے۔ حجاب: جہاں تک بات ہے حجاب کی تو وہ ستر سے زائد ایک چیز ہے،جسے عورتوں اور غیر محرم مردوں کے درمیان حائل کیا گیا ہے اور یہاں بحث ستر کی نہیں بلکہ احکامِ حجاب و پردے کی ہے۔[2] پھر﴿اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا﴾کے بعد والے الفاظ﴿وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلیٰ جُیُوْبِھِنَّ﴾بھی چہرے کے پردے والے قول ہی کی تائید کرتے ہیں،کیونکہ ان میں اﷲ نے فرمایا ہے: ’’اور ان عورتوں کو چاہیے کہ اپنے سینوں پر اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں۔‘‘ تفسیر کشّاف اور ابن کثیر میں مذکور ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں عورتیں سروں پر ایک طرح کے کساوے سے باندھے رکھتی تھیں،جن کی گرہ جوڑے کی طرح پیچھے چوٹی پر لگائی جاتی تھی،سامنے گریبان کا ایک حصہ کھلا رہتا تھا،جس سے گلے اور سینے کا بالائی حصہ صاف نمایاں ہوتا تھا،چھاتیوں پر قمیص کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہوتی تھی اور پیچھے دو دو،تین تین چوٹیاں لہراتی رہتی تھیں۔[3] اس آیت کے نزول کے بعد مسلمان عورتوں میں دوپٹا رائج کیا گیا،جس کا مقصد یہ نہیں کہ آج کل کی ’’صاحبزادیوں‘‘ کی طرح بس دوپٹے کو بل دے کر گلے کا ہار بنا لیا جائے،بلکہ یہ تھا کہ
Flag Counter