Maktaba Wahhabi

319 - 699
ان دونوں احادیث کی تائید ان تین آثار سے بھی ہوتی ہے جو حضرت ابن عباس،عائشہ اور اسماء رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں،جن میں سے بعض آگے چل کر اور بعض کو ہم اس موضوع سے متعلق آثارِ صحابہ کے ضمن میں ذکر کریں گے۔ان شاء اﷲ ساتویں حدیث: اس موضوع پر اس حدیث سے بھی استدلال کیا جاتا ہے،جو صحیح بخاری و مسلم،مسند احمد اور کتبِ سنن اربعہ،بیہقی اور دارمی میں حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے،وہ بیان کرتی ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم فرمایا: ’’ہم نوجوان لڑکیوں،حائضہ عورتوں اور پردہ دار خواتین سب کو نمازِ عید الفطر و عید الاضحیٰ کے لیے عید گاہ کی طرف لے چلیں،حائضہ عورتیں نماز سے الگ رہیں،البتہ خیر اور مسلمانوں کی اجتماعی دعا میں شریک ہو جائیں۔‘‘ آگے ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی: ’’یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ إِحْدَانَا لَا یَکُوْنُ لَھَا جِلْبَابٌ؟‘‘ ’’ہم میں سے جس کے پاس بڑی چادر نہ ہو(وہ کیا کرے؟)‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {لِتُلْبِسُھَا أُخْتُھَا مِنْ جِلْبَابِھَا}[1] ’’اس کی کوئی بہن اسے اپنی چادر اوڑھا دے۔‘‘ سورۃ الاحزاب کی آیت(59)کی تفسیر کے ضمن میں جلباب(بڑی چادر)کی تفسیر ذکر کی جا چکی ہے کہ اس سے مراد وہ بڑی چادر یا کپڑا ہے،جس میں جسم کے ساتھ ساتھ سر اور چہرہ بھی ڈھک جائے۔جلباب کی اس تفسیر یا شرح اور حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے اس سوال سے یہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ صحابیات رضی اللہ عنہما ننگے سر منہ باہر نہیں نکلا کرتی تھیں اور اگر ننگے منہ نکلنا معروف ہوتا تو پھر اس سوال کا کوئی معنیٰ ہی نہ رہتا۔
Flag Counter