Maktaba Wahhabi

325 - 699
’’میں اﷲ سے پناہ مانگتی ہوں کہ میں ان کے ساتھ قبرستان جاتی،جبکہ میں وہ وعیدیں سن چکی ہوں،جو قبرستان جانے والی عورتوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائی ہے۔‘‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {لَوْ بَلَغْتِ مَعَھُمُ الْکُدٰی مَا رَأَیْتِ الْجَنَّۃَ حَتّٰی یَرَاھَا جَدُّ أَبِیْکَ}[1] ’’اگر تم ان کے ساتھ قبرستان تک جا نکلتی تو اس وقت تک جنت کو نہ دیکھ پاتی،جب تک تمھارے باپ کا دادا جنت نہ دیکھ لیتا۔‘‘ اس حدیث میں مذکور واقعے سے معلوم ہوا کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پردے میں چہرہ بھی چھپائے ہوئے تھیں،تبھی تو صحابی کا بیان ہے کہ ہمارے خیال میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں پہلے پہچانا نہیں تھا،اگر ان کا چہرہ ننگا ہوتا تو پھر اس کا کوئی مطلب ہی نہیں بنتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اولاً پہچانا نہیں تھا اور پھر ان کے اس حجاب پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نکیر بھی نہیں کی،جو ان کے لیے اس کی مشروعیت کی دلیل ہے۔اگر چہرے کا پردہ اہل بیت اطہار کی خواتین کے ساتھ ہی خاص ہوتا اور دوسری عورتیں ایسا پردہ نہ کرتی ہوتیں تو پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً پہچان لیتے،کیونکہ چہرے کا حجاب ان کے ساتھ خاص ہوتا۔دوسری خواتین ننگے منہ ہوتیں۔اس سب کے برعکس پتا یہ چلتا ہے کہ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہ سمیت تمام عورتیں چہرے کا بھی پردہ کیا کرتی تھیں۔ پندرھویں حدیث: سابق میں ہم چودہ احادیث آپ کے گوش گزار کر چکے ہیں،جن سے عورتوں کے لیے چہرے کے پردے کے وجوب پر استدلال کیا گیا ہے،جبکہ اسی سلسلے کی بعض دیگر احادیث بھی ہیں،لیکن ہم ان میں سے صرف ایک اور حدیث آپ کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں اور وہ پندرھویں حدیث صحیح بخاری و مسلم،مسند احمد،سنن بیہقی اور طبقات ابن سعد(واللفظ لہ:8/86-87)میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،جس میں غزوۂ خیبر کا قصہ اور حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے قیدی ہونے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انھیں اپنے لیے اختیار کرنے کا واقعہ مذکور ہے،اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے نکلے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ خلوت نہیں فرمائی تھی اور جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس
Flag Counter