سواری کا اونٹ کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ٹانگ آگے اس انداز سے بڑھائی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران پر اپنا پاؤں رکھ کر اونٹ پر بیٹھ جائیں،لیکن انھوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا،البتہ اپنا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران پر رکھ کر اونٹ پر بیٹھیں۔
آگے فرماتے ہیں:
{سَتَرَھَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَحَمَلَھَا وَرَآئَ ہٗ وَجَعَلَ رِدَآئَ ہٗ عَلٰی ظَھْرِھَا وَوَجْھِھَا}
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ستر میں کر لیا اور اپنے پیچھے بیٹھا لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر ان کی کمر اور چہرے پر ڈال لی۔‘‘
آگے مذکور ہے:
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما میں سے بنا لیا۔‘‘
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوۂ حسنہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چہرے سمیت حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کو پردے میں کر لیا۔[1]
یہ سب احادیث ایسی ہیں،جن سے استدلال کرتے ہوئے جمہور اہلِ علم نے چہرے کے پردے کو واجب قرار دیا ہے اور اس حکم کو امتِ اسلامیہ کی تمام عورتوں کے لیے عام شمار کیا ہے۔
رہا معاملہ امہات المومنین رضی اللہ عنہما کے چہرے کے حجاب کے واقعات کا تو وہ خود مانعین میں سے بعض افاضل نے بھی نقل کیے ہیں اور تسلیم کیا ہے کہ وہ چہرے کا پردہ کیا کرتی تھیں اور عام مسلمان عورتوں کے لیے بھی اس کی مشروعیت کو مانا ہے،البتہ وجوب کا انکار کیا ہے۔[2]
آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم
جس طرح ہماری ذکر کردہ پندرہ احادیث سے چہرے کے پردے کے وجوب پر استدلال کیا گیا ہے،ایسے ہی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی کتنے ہی ایسے آثار بھی ہیں جو انہی احادیث کے موافق ہیں۔
پہلا اثر:
ایک اثر صحیح بخاری و مسلم،سنن بیہقی،مسند احمد،طبقات ابن سعد اور تفسیر ابن جریر طبری میں |