Maktaba Wahhabi

345 - 699
نقاب ڈالے چہروں کا پردہ کیے ہوئے ہوتی تھیں۔فقہائے احناف جو چہرے کے پردے کے وجوب کے قائل نہیں ہیں،وہ بھی چہرے کو غیر مشروط کھلا چھوڑنے کے قائل تو نہیں ہیں،بلکہ ان کے نزدیک بھی یہ شرط ہے کہ جب فتنہ و بگاڑ کا خدشہ نہ ہو،تب وہ چہرے کو کھلا رکھ سکتی ہے اور اگر کسی بگاڑ کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو تو پھر فساد و بگاڑ کا دروازہ بند کرنے کے لیے چہرے کا ننگا رکھنا احناف کے نزدیک بھی حرام ہے۔‘‘[1] جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر آئے ہیں کہ اگر احناف کی عائد کردہ اس شرط کو پیشِ نظر رکھ کر اور افرادِ معاشرہ میں فسق و فجور کے دَور دَورہ کو دیکھتے ہوئے معمولی سا بھی غور کیا جائے تو پتا چل جاتا ہے کہ ایسی صورت میں احناف کے نزدیک بھی چہرے کا پردہ واجب ہی بنتا ہے۔یہی بات شیخ عبداﷲ ناصح نے بھی اپنی بحث کے آخر میں لکھی ہے۔ 14۔ڈاکٹر صالح الفوزان: دورِ حاضر کے ایک معروف عالم اور جامعہ قطر کے مصری دیدہ ور علامہ ڈاکٹر یوسف القرضاوی نے ’’اسلام میں حلال و حرام‘‘ کے موضوع پر ایک بہت اہم اور نہایت وقیع کتاب لکھی ہے،جو عربی کے بعد اردو میں بھی شائع ہوچکی ہے۔ افادیت کے اعتبار سے یہ کتاب اپنا ثانی نہیں رکھتی،لیکن جیسا کہ معروف ہے ع گرتے ہیں شہسوار ہی میدانِ جنگ میں ایسے ہی میدانِ علم و قلم کے اس شہسوار سے بھی بعض لرزشیں سرزد ہوگئی ہیں،جن پر دوسرے اہلِ علم نے ان کا مؤاخذہ بھی کیا ہے،تاکہ غلط فہمی نہ ہونے پائے،اس سلسلے میں سب سے اہم کتاب جو ہماری نظر سے گزری ہے،وہ ہے علامہ ڈاکٹر صالح الفوزان کی کتاب ’’الاعلام بنقد کتاب الحلال والحرام في الإسلام‘‘ جبکہ یہ کتاب بھی اردو میں ترجمہ ہو کر چھپ چکی ہے اور اس کے مترجم فجیرہ میں مقیم حافظ محمد اسلم صاحب رحمہ اللہ ہیں۔جزاہ اللّٰه خیراً۔[2] ڈاکٹر قرضاوی نے اپنی کتاب ’’حلال و حرام‘‘ میں غیر مردوں کی موجودگی میں چہرے کو ننگے
Flag Counter