Maktaba Wahhabi

382 - 699
انھیں کوئی مشکل پیش نہیں آتی اور نہ آسکتی ہے،بلکہ چادر کے اندر ہی سے ہاتھ بڑھا کر کچھ بھی کہیں رکھا یا ڈالا جا سکتا ہے۔ 3۔ اس امکان کو بھی ہرگز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس زمانے کے مروج طریقے کے مطابق عورتوں نے دستانے پہن رکھے ہوں،کیونکہ اس وقت اور آج بھی پردہ دار خواتین میں سے بعض عورتیں پردے کے التزام اور اپنی آسانی کی خاطر اپنے ہاتھوں پر دستانے چڑھا لیتی ہیں اور دستانے پہنے ہوئے ہاتھوں کو بھی ہاتھ ہی کہا جائے گا،لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ عورتیں اپنے ہاتھوں سے اشیاے صدقہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں ڈالنے لگیں،ان الفاظ کا اطلاق دستانے والے ہاتھوں پر بھی ہوتا ہے۔ 4۔ اس حدیث میں تو ہاتھوں سے اشیاے صدقہ گرانے یا ڈالنے کا ذکر ہے،اس سے ایک تو ان ہاتھوں کا ننگا ہونا ہی ثابت نہیں ہوتا اور اگر مان ہی لیا جائے تو بھی اس حدیث سے چہرہ ننگا رکھنے کے جواز پر استدلال کرنا ’’دور کی کوڑی لانے‘‘ کے مترادف ہے۔ 5۔ اس حدیث کی تخریج کے بعد ’’حجاب المرأۃ المسلمۃ‘‘ کے مؤلف نے علامہ ابن حزم(3/217)کا قول نقل کیا ہے،جس میں انھوں نے کہا ہے کہ عورت کے ہاتھ اور چہرہ مقامِ ستر نہیں ہیں،تو اس حجاب و نقاب کے تعلق سے واضح کر دیں کہ اس مسئلے میں علامہ ابن حزم رحمہ اللہ کی بات قطعاً ناقابلِ التفات ہے،بلکہ نقاب و حجاب اور گانے بجانے ہر دو کے سلسلے میں موصوف سے دامنِ تحقیق چھوٹ گیا ہے،حتیٰ کہ ان کی کتاب ’’طوق الحمامۃ‘‘ دیکھتے وقت تو یقین کرنا ہی مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ علامہ ابن حزم جیسے نابغۂ روز گار شخص کی تالیف ہے۔[1] ساتویں دلیل: ایسے ہی جوازِ کشف کے قائلین حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ان کے واقعۂ طلاق سے بھی استدلال کرتے ہیں،جس میں صحیح مسلم کی روایت کے مطابق وہ بیان کرتی ہیں: ’’ان کے شوہر حضرت عَمرو بن حفص نے انھیں تیسری طلاق(طلاقِ بتہ)دے دی،وہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا(کہ عَمرو چونکہ
Flag Counter