Maktaba Wahhabi

440 - 699
قرار دیا ہے اور گھر میں تدفین کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے گنوایا ہے۔[1] اس تفصیل سے گھروں میں تدفین کی ممانعت واضح ہوگئی کہ گھر میں کسی کو دفن کرنا صحیح نہیں اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاگھر میں دفن کیا جانا مسلمانوں کے عقیدۂ توحید کے تحفظ،ضعیف العقیدہ لوگوں کے بعض افعال کے خدشے کے لیے تھا اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خصائص میں سے تھا،لہٰذا اسے کوئی شخص دلیل نہیں بنا سکتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر اقدس کا تعمیر میں توسیع کی وجہ سے مسجدِ نبوی کے اندر آجانا بھی اس بات کی دلیل نہیں ہوئی تھی،بلکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دفن کیا تھا،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کو کوئی شخص عبادت گاہ نہ بنا سکے،جس سے بچنے کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود دعا کیا کرتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم کو تاکید فرمایا کرتے تھے،جیسا کہ ان احادیث کی نصوص بھی ہم ذکر کرنے والے ہیں اور اس موضوع سے متعلق نصوص کے بعد نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک پر مشتمل حجرے کے مسجدِ نبوی میں داخل کیے جانے کی تاریخ بھی ذکر کریں گے۔ان شاء اﷲ تعالیٰ۔تاکہ قبروں پر مساجد کی تعمیر اور مساجد میں تدفین کے سلسلے میں پایا جانے والا شبہہ زائل ہو جائے اور اس واقعے سے استدلال کا ضُعف واضح ہو جائے۔ دوسری حدیث: لیکن پہلے آئیے کسی کی قبر پر قبرستان میں تعمیرِ مسجد کی ممانعت پر دلالت کرنے والی احادیث دیکھیں،جن میں سے پہلی حدیث ہم ذکر کر چکے ہیں۔دوسری حدیث صحیح بخاری ومسلم،سنن ابو داود،مسند احمد و ابی یعلی،مسند سراج و ابو عوانہ،مصنف عبدالرزاق(موقوفاً)اور تاریخ ابن عساکر میںسعید بن مسیب اور یزید بن اصم کے طریق سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {قَاتَلَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِھِمْ مَّسَاجِدَ}[2] ’’اﷲ تعالیٰ یہودیوں کو غارت کرے کہ انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو عبادت گاہیں بنا لیا۔‘‘
Flag Counter