Maktaba Wahhabi

446 - 699
’’مجھے(میرے چچا)حضرت عباس رضی اللہ عنہ ملے اور فرمایا:اے علی رضی اللہ عنہ ! میرے ساتھ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چلو۔اگر ہمارے لیے کچھ ہوا تو ٹھیک ہے،ورنہ کم از کم آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ہماری نسبت بھلائی کی وصیت ہی فرمائیں گے۔لہٰذا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے،مگر اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم غشی کے عالم میں تھے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سرِ اقدس کو اٹھایا اور فرمایا:اﷲ کی لعنت ہو یہودیوں پر! انھوں نے انبیا کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا اور ایک روایت میں یہ اضافی الفاظ بھی مروی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ بات ارشاد فرمائی۔‘‘ چودھویں حدیث: الجامع الکبیر سیوطی میں منقول ہے،جسے ابن زنجویہ نے’’فضائلِ صدیق‘‘ میں روایت کیا ہے کہ امہات المومنین رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا: ’’کَیْفَ نَبْنِيْ قَبْرَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم ؟ أَنَجْعَلُہٗ مَسْجِداً؟‘‘ ’’ہم نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک کیسے بنائیں؟ کیا ہم اسے مسجد(عبادت گاہ)بنا دیں؟‘‘ تو اس پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا ہے: {لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ وَالنَّصَاریٰ اِتَّخَذُوْا قُبُوْرَ أَنْبِیَائِ ھِمْ مَّسَاجِدَ}[1] ’’اﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ پر لعنت فرمائے کہ انھوں نے اپنے انبیا کی قبروں کو عبادت گاہ بنا ڈالا۔‘‘ قارئینِ کرام! یہ چودہ احادیث ہیں اور ان میں سے بعض کے متعدد شواہد بھی ہیں،جن کی طرف ہم اشارہ کر آئے ہیں۔ان سب کا مجموعی دو حرفی مفادیہ ہے کہ کسی نبی یا نیک آدمی کی قبر پر یا عام مسلمانوں کے قبرستان میں مسجد و عبادت گاہ بنانا جائز نہیں ہے،انہی احادیث میں سے بعض کے ضمن میں ہم نے ذکر کیا ہے کہ کسی کا اپنے گھر میں دفن کیے جانے کی وصیت کرنا وغیرہ بھی جائز نہیں،بلکہ تعاملِ صحابہ رضی اللہ عنہم قبرستان میں تدفین ہی ہے۔اس سلسلے میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں دفن کیے جانے اور اس گھر کی توسیع کے نتیجے میں مسجد کے اندر آجانے سے استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔
Flag Counter