Maktaba Wahhabi

447 - 699
مسجد یا عبادت گاہ بنانے سے مراد اب یہاں ہم یہ بات بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ان احادیث میں جو آیا ہے کہ یہود و نصاریٰ نے انبیا و صالحین کی قبروں کو مساجد یا عبادت گاہیں بنا لیا یا وہ مسلمان جو نیک لوگوں کی قبروں یا قبرستانوں کو عبادت گاہ بنا لیں گے تو اس سے کیا مراد ہے؟ اہلِ علم نے اسے مسجد بنا لینے یا عبادت گاہ بنا لینے کے تین مفہوم بیان کیے ہیں: پہلا مفہوم و معنیٰ: ان میں سے ایک مفہوم تو وہی ہے جو ہم نے ان احادیث کے ترجمے میں اختیار کیا ہے۔یعنی قبر پر یا قبرستان میں مسجد وعبادت گاہ بنا لینا۔امام بخاری رحمہ اللہ کا اختیار یہی مفہوم ہے،کیونکہ ہماری ذکر کردہ پہلی حدیث پر امام بخاری رحمہ اللہ نے یوں تبویب کی ہے: ’’بَابُ مَا یُکْرَہُ مِنَ اِتَّخَاذِ الْمَسَاجِدِ عَلٰی الْقُبُوْرِ‘‘ یعنی قبروں پر مساجد تعمیر کرنے کی کراہت کا بیان۔ اس تبویب میں انھوں نے اس بات کی طرف اشارہ کر دیا ہے کہ قبر کو عبادت گاہ بنانے کی ممانعت سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ قبر پر مسجد تعمیر کرنا ممنوع ہے۔علامہ مناوی نے فیض القدیر شرح الجامع الصغیر سیوطی میں اور کرمانی سے نقل کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اس مفہوم کی تصریح کی ہے۔[1] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے الفاظ ہیں: ’’فَلَوْلَا ذَاکَ أُبْرِزَ قَبْرُہٗ غَیْرَ أَنَّہٗ خُشِيَ أَنْ یُّتَّخَذَ مَسْجِداً‘‘ ’’اگر پوجا کا خدشہ نہ ہوتا(یا قبروں پر مساجد بنانے والوں پر لعنت نہ ہوتی)تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک کھلی جگہ پر بنائی جاتی۔‘‘ ان کے ان الفاظ سے پتا چلتا ہے کہ انھوں نے بھی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات سے یہی مفہوم سمجھا تھا۔ان کے یہی معنیٰ سمجھنے کا پتا ایک اور حدیث سے بھی چلتا ہے،جو طبقات ابن سعد میں حضرت حسن بصری رحمہ اللہ سے مرسلا مروی ہے:
Flag Counter