Maktaba Wahhabi

470 - 699
پیشِ نظر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم(کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہما)کے مکانات کو مسجد میں داخل کر دیا گیا۔اگرچہ(سلف صالحینِ امت میں سے)بعض افراد نے اس عمل(مسجد میں اِدخالِ حجرہ کے فعل)کو ناپسند کیا ہے۔‘‘[1] اس تفصیل سے اس شبہے کا ازالہ ہو گیا کہ قبر والی ہر مسجد میں نماز مکروہ ہے،لیکن مسجدِ نبوی اپنے مخصوص فضائل کی وجہ سے اس حکم سے مستثنیٰ ہے۔لہٰذا جب کسی دوسری مسجد کو وہ اسبابِ فضیلت حاصل نہیں ہیں تو اسے کراہت کے حکم سے مستثنیٰ بھی نہیں کیا جائے گا۔ 4۔حجرۂ نبوی کا مسجدِ نبوی میں داخل کیا جانا: یہیں بعض دیگر اشکالات و شبہات کا ازالہ بھی کرتے جائیں کہ جو سمجھا جاتا ہے کہ اگر مسجد میں قبر کی تعمیر مکروہ ہوتی تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ مبارک مسجدِ نبوی میں کیوں ہوتی؟ اس سوال کا جواب یا اس شبہے کے ازالے کے لیے ضروری ہے کہ حجرۂ نبوی جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دفن کیا گیا تھا،اس کے مسجد میں داخل کیے جانے کی تاریخ و پس منظر ذہن میں ہو،کیونکہ یہ تو کوئی بھی صاحبِ علم نہیں کہے گا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں دفن کیا گیا تھا،بلکہ آج بظاہر جو نظر آرہا ہے،یہ عہد صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد وقوع پذیر ہوا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے بیان کردہ ایک ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشِ نظر مسجد میں نہیں،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہوئی تھی۔ وہ گھر یا حجرہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والا وہی حجرۂ مبارکہ ہے،جہاں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات طیبہ کے آخری دن اور مرض الموت کا وقت گزارا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین کے سلسلے میں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین پیدا ہونے والے نزاع اور حضرت صدیق اور صدیقۂ کائنات رضی اللہ عنہما کے ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال کرنے اور تمام صحابہ رضی اللہ عنہم کے بالاتفاق اس پر عمل کرنے کا واقعہ کتبِ حدیث کے حوالے سے ہم ذکر کر چکے ہیں۔ اگر اس واقعے کو سامنے رکھا جائے تو یہ فیصلہ کرنا آسان ہو جاتا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
Flag Counter