Maktaba Wahhabi

482 - 699
حمام میں نماز کی کراہت و ممانعت: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ والی حدیث میں مقبرہ یا قبرستان کے ساتھ ہی حمام میں بھی نماز کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔امام احمد،ابو ثور اور ظاہریہ کا یہی مسلک ہے کہ حمام میں نماز جائز نہیں۔صحابہ میں سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اسی ہی کی روایت ملتی ہے۔علامہ ابن حزم کے بقول اس سلسلے میں ان کاکوئی مخالف بھی معلوم نہیں ہو سکا۔تابعین رحمہم اللہ میں سے نافع بن جبیر بن مطعم،ابراہیم نخعی،خیثمہ اور زیاد رحمہم اللہ سے بھی اسی کی روایات ملتی ہیں رحمہم اللہ۔ جمہور نے حمام کے پاک صاف ہونے کی شکل میں نماز جائز مگر مکروہ قرار دی ہے،اس کے لیے انھوں نے عمومی احادیث سے استدلال کیا ہے،جن میں سے صحیح بخاری ومسلم،سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {أَیْنَمَا أَدْرَکَتْکَ الصَّلَاۃُ فَصَلِّ}[1] ’’تمہیں جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے تو وہیں نماز پڑھ لو۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ ممانعت کا حکم صرف اس حالت پر محمول ہے جب کہ حمام نجس ہو،لیکن امام شوکانی رحمہ اللہ کے بقول عدمِ جواز والا پہلا قول ہی برحق ہے،کیونکہ قبرستان اور حمام میں نماز کی ممانعت والی احادیث عمومی جواز پر دلالت کرنے والی احادیث سے ان دونوں جگہوں کو خاص کر دیتی ہیں،یعنی جہاں بھی نماز کا وقت ہو جائے نماز پڑھ،لیکن قبرستان اور حمام میں مت پڑھو۔ حمام میں نماز کی ممانعت میں کیا حکمت پنہاں ہے؟ اس سلسلے میں ایک تو یہ کہا گیا ہے کہ اس میں بکثرت نجاست ہوتی ہے،اس لیے اس میں نماز جائز نہیں اور یہ بھی کہاگیا ہے کہ حمام شیطان کا ڈیرہ ہوتے ہیں۔[2] شیطان کے ڈیروں پر نماز پڑھنا ممنوع ہے،جیسا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک سفر کے دوران میں تمام صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت نمازِ فجر سے سوئے رہ جانے اور سورج کی کرنوں سے جاگنے کے بعد اس جگہ سے کچھ آگے جا کر نماز پڑھنے کے واقعہ کے ضمن میں ہم ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے بقول نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
Flag Counter