Maktaba Wahhabi

483 - 699
{فَإِنَّ ھٰذَا مَنْزِلٌ حَضَرَنَا فِیْہِ الْشَّیْطَانُ}[1] ’’یہ ایسی جگہ(یا وادی)ہے جس میں شیطان حاضر ہوچکا ہے(یعنی یہاں وہ ڈیرہ لگا چکا ہے۔لہٰذا یہاں سے روانہ ہو جاؤ)۔‘‘ پھر آگے جاکر فجر کی نماز ادا فرمائی۔امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں لکھا ہے: ’’فِیْ دَلِیلٌ عَلَیٰ اِسْتِحْبَابِ اِجْتِنَابِ مَوَاضِعِ الشَّیْطَانِ،وَھُوَ أَظْھَرُ الْمُعْنَیَیْنِ فِيْ النَّھْيِ عَنِ الصَّلَاۃِ فِيْ الْحَمَّامِ‘‘ ’’اس حدیث میں اس بات کی دلیل پائی جاتی ہے کہ شیطان کے ڈیروں سے اجتناب کرنا مستحب ہے۔حمام میں نماز پڑھنے کی ممانعت کے دو معنوں میں سے بھی ظاہر ترین یہی معنیٰ ہے۔‘‘ اس عدم جواز یا ممانعت کی روایت حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی ملتی ہے،جس میں وہ فرماتے ہیں: {لَا یُصَلِّیْنَ إِلٰی حِشٍّ وَلَا فِيْ حَمَّامٍ وَلَا فِي الْمَقْبَرَۃِ} ’’پاخانہ گاہ(لیٹرین)کی طرف منہ کرکے اور حمام کے اندر اور قبرستان میں ہر گز نماز نہ پڑھے۔‘‘ یہی وہ اثر ہے،جسے ذکر کر کے علامہ ابن حزم رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ہمیں اس مسئلے میں کسی کا اختلاف معلوم نہیں ہو سکا۔ اونٹوں کے باڑے میں نماز کی کراہت و ممانعت: شیطان کے ڈیروں میں نماز کی ممانعت کے سلسلے میں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اونٹوں کے باندھے جانے والے باڑوں کو بھی ایسی جگہوں میں سے شمار کیاگیا ہے،جہاں نماز پڑھنا مکروہ ہے اور اس سلسلے میں متعدد احادیث میں متعدد الفاظ وارد ہوئے ہیں۔مثلاً حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے اکثر کی مرویات میں تو ’’معاطن الإبل‘‘ کے الفاظ وارد ہوئے،جب کہ حضرت جابر بن سمرہ اور حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث میں ’’مبارک الإبل‘‘،ایسے ہی حضرت سلیک رضی اللہ عنہ سے مروی
Flag Counter