Maktaba Wahhabi

503 - 699
ہو گیا ہے،جسے اہلِ علم نے یوں حل کیا ہے کہ سامنے سوئے ہوئے شخص سے ممکن ہے کوئی ایسی چیز ظاہر ہو جو نمازی کو نماز سے غافل کر دے اور اس کی توجہ ہٹا دے اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے انداز کو بھانپتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اگر نمازی کو ایسی حالت کا خدشہ نہ ہو یا سامنے والے شخص سے ایسی بات کا اندیشہ نہ ہو تو ایسے میں ان کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ نہیں ہے،ورنہ مکروہ ہے۔امام مالک نیز حضرت مجاہد اور طاؤوس رحمہم اللہ کا مکروہ کہنا اسی پہلی صورت سے تعلق رکھتا ہے۔[1] اس طرح دونوں قسم کی احادیث میں کوئی تعارض نہ رہا۔سونے والے شخص کی طرح ہی حدیث میں باتیں کرنے والے کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے،لہٰذا امام خطابی رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے کہ امام شافعی و احمد رحمہ اللہ باتیں کرنے والے شخص کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کو بھی مکروہ قرار دیتے تھے،لکھا ہے کہ ابو عمر کسی بولتے شخص کے سامنے نماز نہیں پڑھتے تھے،سوائے جمعہ کے دن خطیب کے سامنے پڑھنے کے۔[2] امام بغوی رحمہ اللہ نے بھی شرح السنۃ میں لکھا ہے کہ اس بات کی ممانعت بیان کی جاتی ہے کہ دو آدمی باتیں کر رہے ہوں اور ان کے مابین(سامنے)کوئی نماز پڑھ رہا ہو۔[3] سنن ابو داود و ابن ماجہ والی حدیث کی طرح ہی الکامل لابن عدی میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اور طبرانی اوسط میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی احادیث بھی ہیں،لیکن وہ دونوں بھی واہی ہیں۔امام خطابی رحمہ اللہ کے بقول امام شافعی و احمد رحمہ اللہ نے باتیں کرنے والے شخص کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کو مکروہ کہا ہے،کیونکہ اس کی باتیں نمازی کی نماز سے توجہ ہٹا دیتی ہیں۔[4] 20۔وادی کے بطن میں نماز: کسی وادی کے بطن میں نماز کی ممانعت کا ذکر سات مقامات والی حدیث کے بعض طُرق میں مقبرہ کے بجائے ’’بطن الوادي‘‘ کے لفظ سے وارد ہوا ہے،جس کے بارے میں امام نووی رحمہ اللہ نے ’’روضۃ الطالبین‘‘ میں کہا ہے:وادی کے بطن میں نماز کی ممانعت قطعاً نہیں ہے۔ابن صلاح نے
Flag Counter