Maktaba Wahhabi

504 - 699
کہا ہے کہ کتبِ حدیث میں اس کا کوئی ثبوت یا ذکر مجھے نہیں ملا۔حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں کہا ہے کہ یہ اضافہ باطل ہے۔ویسے بھی بطنِ وادی میں نماز ممنوع و مکروہ کیسے ہو سکتی ہے،جبکہ ابن صلاح کے بقول خود بیت اﷲ شریف اور مسجدِ حرام بطنِ وادی میں ہی ہیں۔[1] 21-22-23۔بدعتی یا بے وضو،جنبی اور حائضہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا: بدعتی یا بے وضو،جنبی اور حائضہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی ممانعت و کراہت پر اس روایت سے استدلال کیا گیا ہے،جو امام یحییٰ نے اپنی کتاب الانتصار میں ذکر کی ہے،جس میں ہے: {لَا صَلَاۃَ إِلٰی مُحْدِثٍ،لَا صَلَاۃَ إِلٰی جُنُبٍ،لَا صَلَاۃَ إِلٰی حَائِضٍ}[2] ’’بدعتی یا بے وضو،جنبی اور حائضہ کی طرف منہ کر کے نماز نہیں ہوتی۔‘‘ لیکن اس حدیث کی استنادی حیثیت کے بارے میں امام شؤکانی رحمہ اللہ نے کچھ نہیں کہا،جبکہ ’’الانتصار‘‘ نامی کتاب بھی کوئی ایسی مستند نہیں ہے کہ اس میں وارد حدیث کو بلا تحقیق قبول کیا جا سکتا ہو۔ 24۔فاسق کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا: فاسق کی طرف نماز سے ممانعت و کراہت اس کی اہانت و تذلیل کرنے کی غرض سے ہے کہ گویا وہ انسان نہیں،نجاست کا ڈھیر ہے،لیکن اس کی ہمیں واضح دلیل نہیں ملی۔ 25-26 اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دینی اَمر سے مذاق: علامہ ابن حزم نے جو اﷲ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی دینی امر سے مذاق یا کفر والی مسجد یا جگہ پر نماز کی کراہت ذکر کی ہے تو اس پر قرآن و سنت کے عمومی دلائل سے استدلال کیا ہے۔ خانہ کعبہ کے اندر نماز کی مشروعیت بیت اﷲ کی چھت پر نماز کا ذکر تو ہوچکا ہے،جبکہ اس کی نوبت کا آنا انتہائی ناممکن اور نادرسی بات ہے،لیکن چونکہ ایک روایت میں اس کا ذکر آگیا ہے اور اہلِ علم نے اپنی کتب میں اس کا تذکرہ کیا ہے،لہٰذا ہم نے بھی اس کا حکم ذکر کر دیا ہے کہ حدیثِ ممانعت کے ضعیف ہونے کی وجہ سے خانہ کعبہ کی
Flag Counter