Maktaba Wahhabi

509 - 699
بلال اور دوسرے حضرات رضی اللہ عنہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بھی پردہ رکھتے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا،بلکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی طرف سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے سوال پر یہ صراحت موجود ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور کسی ایک صحابی کا کسی فعلِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نقل کر دینا اس حکم کے اثبات کے لیے کافی ہوتا ہے۔ آگے وہ لکھتے ہیں کہ بظاہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اندر سے دروازہ بند کر لینا،اس حکمت کے لیے نہیں تھا جو بیان کی گئی ہے،بلکہ اس کی اصل غرض و غایت یا حکمت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو(اور دیگر تین صحابہ رضی اللہ عنہم کو)خانہ کعبہ میں داخل ہوتے دیکھ کر سب ہجوم کر کے نہ آجائیں یا پھر یہ کہ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کو زیادہ سکون ملتا اور دلجمعی و خشوع زیادہ ہوتا۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ دروازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لیے بند کر لیا،تاکہ خانہ کعبہ کی ہر چہار اطراف میں منہ کر کے نماز پڑھنا ممکن ہوسکے،کیونکہ دروازہ کھلا ہونے کی شکل میں اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے اور حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو اس لیے اپنے ساتھ اندر جانے کی اجازت بخشی،تاکہ کہیں وہ یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ انھیں تولیتِ کعبہ سے سبکدوش کر دیا گیا ہے(کیونکہ ان کا خاندان یکے بعد دیگرے خانہ کعبہ کا متولی چلا آرہا تھا)حضرت اسامہ و بلال رضی اللہ عنہما دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مستقل خدمت گزاری کے لیے رہنے والے تھے،لہٰذا انھیں بھی اپنے ساتھ ہی خانہ کعبہ کے اندر لے گئے تھے۔[1] ایک اشکال کا ازالہ: نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دخولِ کعبہ اور اس میں نماز پڑھنے والے واقعے سے متعلق جو احادیثِ ابن عمر رضی اللہ عنہما ہم نے ذکر کی ہیں،ان میں تو مذکور ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے بقول نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھی تھیں،جبکہ صحیح بخاری(8/18)ہی کی ایک روایت میں خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما ہی سے مروی ہے کہ وہ یہ پوچھنا ہی بھول گئے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں کتنی رکعتیں پڑھی تھیں؟ اس سے بخاری شریف کے ایک شارح اسماعیلی نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کو نماز کی کیفیت یعنی خانہ کعبہ کے اندر نماز کی جگہ کی تعیین و تحدید بتائی تھی،نماز کی رکعتوں کی تعداد نہیں بتائی تھی اور وہ بھی ان سے پوچھنا بھول گئے تو پھر یہ دو رکعتوں کا ذکر کیسے آگیا؟
Flag Counter