Maktaba Wahhabi

513 - 699
داخل ہونے سے انکار کر دیا،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان معبودانِ باطلہ کو نکالا گیا۔‘‘ اسی حدیث کے آخر میں یہ الفاظ ہیں: {فَدَخَلَ الْبَیْتَ فَکَبَّرَ فِيْ نَوَاحِیْہِ،وَلَمْ یُصَلِّ فِیْہِ}[1] ’’تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور اس کے سب کونوں میں تکبیریں پڑھیں،جبکہ اس میں نماز نہیں پڑھی۔‘‘ اس طرح ایک ہی پائے کی یعنی صحیح بخاری ہی میں وارد دو حدیثوں کے مابین تعارض و تضاد ہوگیا،لیکن یہ کوئی ایسا عقدہ نہیں جو لا ینحل ہو۔شارحین بخاری میں سے صاحبِ فتح الباری نے اس تعارض و تضاد کو حل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ خانہ کعبہ میں تکبیریں کہنے کے سلسلے میں تو کوئی تعارض نہیں ہے،کیونکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تکبیروں کو ثابت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی تھیں،جبکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اس تکبیروں کے موضوع کو چھیڑا ہی نہیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا حل: اب رہا معاملہ خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے کا تو اس مسئلے میں حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا نماز پڑھنے کو ثابت کرنا،حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے نماز کی نفی کرنے سے راجح ہے،کیونکہ فتح مکہ کے موقع پر جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تھے،اس وقت حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خانہ کعبہ میں موجود تھے(اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر سے دروازہ بند کر لیاتھا)جبکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں تھے۔نماز کی نفی کو کبھی تو وہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں اور کبھی اپنے بھائی حضرت فضل رضی اللہ عنہ کے حوالے سے،جبکہ یہ ثابت ہی نہیں کہ حضرت فضل رضی اللہ عنہ اس وقت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور جس روایت میں ان کا ذکر آیا ہے،وہ ویسے ہی شاذ ہے۔یعنی حضرت فضل رضی اللہ عنہ کی خانہ کعبہ میں موجودگی والی روایت شاذ ہے۔ چنانچہ مسند احمد میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے طریق سے ان کے بھائی حضرت فضل رضی اللہ عنہ سے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کی نفی آئی ہے اور اس کے بارے میں بھی یہ احتمال ہے کہ انھوں نے یہ بات حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے سن کر کہی ہو،کیونکہ وہ خود تو اندر موجود ہی نہیں تھے اور
Flag Counter