Maktaba Wahhabi

518 - 699
طریقے پر پھر امام نووی رحمہ اللہ کا تعاقب آجاتا ہے،جس میں وہ کہتے ہیں کہ بلا اختلاف نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ میں داخل ہوئے ہیں،حجۃ الوداع کے موقع پر نہیں۔امام نووی رحمہ اللہ کی اس بات کی تائید ازرقی کی کتابِ مکہ میں وارد ان روایات سے بھی ہوتی ہے،جن میں کئی اہلِ علم نے کہا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک ہی مرتبہ فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تھے۔رہا حجۃ الوداع کا موقع تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم داخل نہیں ہوئے اور جب یہ بات ہے تو پھر اس امر میں کوئی چیز مانع نہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں فتح مکہ ہی کے موقع پر دو دفعہ داخل ہوئے ہوں اور ایک مرتبہ سے مراد ایک سفر ہو نہ کہ ایک مرتبہ داخل ہونا۔[1] اس تفصیل سے مسئلہ حل ہوگیا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ میں نماز پڑھی ہے اور یہ فتح مکہ کا موقع تھا،اگرچہ اسی سفر کے دوران میں کبھی دوسری مرتبہ بھی خانہ کعبہ میں داخل ہوئے ہوں گے،لیکن اس مرتبہ نماز نہ پڑھی اور یہی سب سے بہترین موافقت و مطابقت ہے۔ نفل یا فرض بھی؟: خانہ کعبہ میں نماز سے متعلق ایک آخری موضوع بھی مختصراً عرض کرتے چلیں کہ متعلقہ احادیث سے تو نفلی نماز ہی کا پتا چلتا ہے،لیکن استقبالِ کعبہ کے مسئلے میں نفل و فرض ہر دو نمازوں کا حکم ایک جیسا ہے۔لہٰذا نفلی نماز کی طرح ہی فرضی نماز بھی خانہ کعبہ میں مشروع ہے۔جمہور اہلِ علم کا یہی مسلک ہے(اور احادیث صحیحہ سے بظاہر اسی کی تائید ہوتی ہے)البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا کہنا ہے کہ کعبہ شریف کے اندر قطعاً کوئی نماز نہیں ہوتی۔ان کا یہ کہنا ہے کہ اندر نماز پڑھنے سے کعبہ شریف کے بعض حصوں کی طرف پشت یا پیٹھ ہوتی ہے،جبکہ حکم اس کی طرف منہ کرنے کا ہے اور یہ منہ کرنے کا حکم سارے کعبہ کی طرف منہ کرنے پر محمول ہوگا(لہٰذا بعض کی طرف پشت ہونے کی صورت میں نماز نہیں ہوگی)بعض مالکی فقہا،ظاہریہ اور امام طبری رحمہ اللہ نے بھی یہی موقف اختیار کیا ہے۔مالکیہ میں سے مازری نے کہا ہے کہ ہمارے مسلک میں مشہور موقف یہی ہے کہ کعبۃ اﷲ کے اندر نماز منع ہے اور اگر کوئی پڑھ لے تو وہ دہرائے،جبکہ ابن عبدالحکم نے کہا ہے کہ نماز ہوجائے گی۔
Flag Counter