Maktaba Wahhabi

532 - 699
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق اکثر صحابہ و تابعین نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی توسیع و تجدید سے اتفاق نہیں کیا تھا۔[1] ایسے ہی فتح الباری میں بھی بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف سے عدمِ استحسان کا تذکرہ(1/540)اشارتاً اور(1/545)صراحتاً موجود ہے اور حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی بطورِ خاص مذکور ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،خلفاے راشدین اور عام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عام زندگی کے معمولات کی طرح ہی تعمیرِ مسجد کے معاملے میں بھی سادگی پسند تھے اور وہ مساجد کے بناؤ سنگھار کو ناپسند کرتے تھے۔مساجد کی زیب و زینت کا آغاز عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے آخری دور میں شروع ہوا اور سب سے پہلے ولید بن عبدالملک نے مساجد میں نقش و نگار کیے،جس پر فتنہ کھڑا ہونے کے ڈر سے اکثر اہلِ علم خاموش رہے۔ رخصت اور تقریب: بعض اہلِ علم نے مساجد کی سجاوٹ کرنے کی اجازت دی ہے،جن میں سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ بھی ہیں،لیکن اس کے لیے بھی انھوں نے یہ شرائط ذکر کی ہیں: 1۔ فخر و مباہات یا نمود و نمایش کے لیے نہیں،بلکہ یہ فعل خالص احترام و تعظیمِ مسجد کے جذبے سے ہو۔ 2۔ مسجد کی سجاوٹ پر مسلمانوں کے بیت المال سے دولت صرف نہ کی جائے(جو حوائج ضروریہ کے لیے ہوتی ہے،بلکہ اس پر اپنی جیب خاص سے پیسا خرچ ہو،امام صاحب موصوف رحمہ اللہ کی رائے جیسا ہی ایک شارح بخاری البدر ابن المنیر کا قول بھی ہے۔ موصوف فرماتے ہیں: ’’لَمَّا شَیَّدَ النَّاسُ بُیُوْتَھُمْ،وَزَخْرَفُوْھَا نَاسَبَ أَنْ یُّصْنَعَ ذٰلِکَ بِالْمَسَاجِدِ صَوْنًا لَھَا عَنِ الْإِسْتِھَانَۃِ‘‘[2] ’’جب لوگوں نے اپنے گھر اونچے اونچے بنا لیے اور ان کی سجاوٹیں کر ڈالیں تو اب مناسب یہی تھا کہ مساجد کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے،تاکہ ان کے وقار و احترام میں
Flag Counter