Maktaba Wahhabi

543 - 699
{إِنَّکَ آذَیْتَ اللّٰہُ وَرَسُوْلَہٗ}[1] ’’تم نے(قبلہ رو تھوک کر)اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچائی ہے۔‘‘ ایسے ہی معجم طبرانی کبیر میں حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو حکم فرمایا کہ وہ لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائے،اس نے لوگوں کو نماز پڑھانے کے دوران ہی قبلہ رو تھوک دیا۔جب نمازِ عصر کا وقت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو نماز پڑھانے کا پیغام بھیج دیا،اس سے پہلا آدمی ڈر گیا اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس نے پوچھا:اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم:’’ أَ أُنْزِلَ فِيَّ شَیْیٌٔ‘‘(کیا میرے بارے میں کوئی حکم نازل ہوگیا ہے؟)آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: {لَا،وَلٰکِنَّکَ تَفَلْتَ بَیْنَ یَدَیْکَ وَأَنْتَ قَائِمٌ تَؤُمُّ النَّاسَ فَآذَیْتَ اللّٰہَ وَالْمَلَائِکَۃَ}[2] ’’نہیں(آسمان سے تو کوئی حکم نازل نہیں ہوا)لیکن تم نے لوگوں کی امامت کروانے کے دوران ہی کھڑے کھڑے قبلہ رو تھوک کر اﷲ تعالیٰ اور فرشتوں کو اذیت پہنچائی ہے۔‘‘ مطلقاً ممانعت: ہماری دنیا کا ایک عام اصول ہے کہ کسی کی طرف منہ کر کے تھوکنا برا سمجھا جاتا ہے اور سامنے والا بگڑ جاتا ہے کہ تم نے میری طرف منہ کر کے تھوکا کیوں ہے؟ کیونکہ عرفِ عام میں یہ تحقیر کی علامت ہے،جبکہ قبلہ و کعبہ اور بیت اﷲشریف اس تحقیر اور توہین آمیز انداز سے کہیں بالا ہیں،اس جہت یا جانب کا احترام واجب ہے اور قبلہ رو ہو کر تھوکنا حرام ہے،وہ مسجد کے اندر ہو یا باہر،کوئی نماز پڑھ رہا ہو یا نماز کے بغیر عام معمول کی حالت میں ہو،یہ مطلقاً ہی ممنوع ہے۔ دلائلِ ممانعت: اس ممانعت کے دلائل کے سلسلے میں جن احادیث سے استدلال کیا جاتا ہے،ان میں سے صحیحین اور سنن میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث ہے،جو سابقہ اوراق میں ذکر کر چکے ہیں،اس
Flag Counter