Maktaba Wahhabi

548 - 699
جانب کو بائیں پر فوقیت و شرف حاصل ہے،چنانچہ صحیحین،سنن اربعہ اور مسند احمد میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: {کَانَ النَّبِيُّ صلی اللّٰه علیہ وسلم یُعْجِبُہُ التَّیَمُّنُ فِيْ تَنَعُّلِہٖ وَتَرَجُّلِہٖ وَطُھُوْرِہٖ وَفِيْ شَأْنِہٖ کُلِّہٖ}[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جوتا پہننے،کنگھی کرنے اور طہارت کرنے حتیٰ کہ تمام اُمور(کی ابتدا کرنے)میں دایاں پہلو محبوب تھا۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے،پینے،نہانے،کپڑا پہننے،کوئی چیز پکڑنے،پکڑانے،مسجد میں داخل ہونے،تسبیح کرنے،لیٹنے،غرض کہ ہر معاملے میں دائیں ہاتھ،دائیں پاؤں اور دائیں پہلو کو پسند فرماتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی اپنی امت کے افراد کو تاکید بھی فرمائی ہے۔ البتہ ناک صاف کرنے اور استنجا کرنے کے لیے بائیں ہاتھ کو اور لیٹرین میں داخل ہوتے وقت اور مسجد سے نکلتے وقت بائیں پاؤں کو اولیت دیتے تھے،اس کا سبب بھی بڑا واضح ہے کہ دائیں ہاتھ اور پاؤں کو جو شرف حاصل ہے،یہ امور اس کے شایانِ شان نہیں ہیں،لہٰذا ان کے لیے بائیں کو خاص کر دیا گیا ہے۔دائیں یا بائیں ہاتھ،پاؤں یا پہلو سے متعلق ان سب امور کے دلائل کتبِ حدیث میں موجود ہیں،جن کا سرِ دست تذکرہ خارج از موضوع ہے،لہٰذا ہم اس سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔ ممانعت کے دلائل: البتہ دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت کے دلائل کے سلسلے میں عرض ہے کہ صحاح و سنن اور معاجم و مسانید میں جہاں جہاں قبلہ رو تھوکنے کی ممانعت آئی ہے،وہیں وہیں دائیں جانب تھوکنے کی ممانعت بھی وارد ہوئی ہے،جن میں سے قبلہ رو تھوکنے کی طرح ہی بعض احادیث نماز و مسجد کے ساتھ خاص ہیں،جبکہ بعض دیگر اس قید سے آزاد اور مطلق ممانعت پر دلالت کرتی ہیں۔وہ احادیث چونکہ ذکر کی جا چکی ہیں،لہٰذا انھیں یہاں دُہرانے کی ضرورت نہیں،البتہ ان کے بارے میں شارحینِ حدیث اور ائمہ و علما نے جو تشریحی افادات رقم فرمائے ہیں،ان میں سے بعض اور چند آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے تذکرے پر ہی ہم اکتفا کرتے ہیں۔
Flag Counter