Maktaba Wahhabi

552 - 699
دوسرا جواب: اس اشکال کا دوسرا جواب بعض متاخرین اہلِ علم نے یہ دیا ہے کہ نماز بدنی اعمال میں سے سب سے بڑا اور اہم عمل ہے،لہٰذا دورانِ نماز برائیاں لکھنے والے فرشتے کو کوئی دخل ہی حاصل نہیں ہوتا۔مصنف ابن ابی شیبہ کی موقوف روایت جو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے،کیونکہ اس میں ہے کہ دائیں جانب بھی نہ تھوکیں: ’’فَإِنَّ عَنْ یَّمِیْنِہٖ کَاتِبُ الْحَسَنَاتِ‘‘[1] ’’اس کی دائیں جانب نیکیاں لکھنے والا فرشتہ ہوتا ہے۔‘‘ علامہ عینی رحمہ اللہ یہی جواب نقل کر کے لکھتے ہیں: ’’یہ بات بھی محلِ نظر ہے،کیونکہ برائیاں لکھنے والا فرشتہ اگرچہ دورانِ نماز لکھتا نہیں،لیکن کم از کم اپنی جگہ سے غائب بھی تو نہیں ہوتا،بلکہ وہ بھی موجود رہتا ہے۔‘‘[2] تیسرا جواب: اس اشکال کا تیسرا جواب یہ ہے کہ طبرانی میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ہے: ’’فَإِنَّہٗ یَقُوْمُ بَیْنَ یَدَيِ اللّٰہُ وَمَلَکُہٗ عَنْ یَّمِیْنِہٖ،وَقَرِیْنُہٗ عَنْ یَّسَارِہٖ‘‘[3] ’’نمازی اپنے اﷲ کے سامنے اس طرح کھڑا ہوتا ہے کہ فرشتہ اس کی دائیں جانب اور قرین(شیطان)اس کی بائیں جانب ہوتا ہے۔‘‘ اس شکل میں دائیں جانب تو فرشتہ ہوا،لہٰذا ادھر تھوکنا ممنوع ہے اور اگر بائیں جانب تھوکا جائے گا تو وہ قرین یا شیطان پر پڑے گا۔ممکن ہے کہ اس وقت بائیں جانب والا فرشتہ ایسی جگہ ہوتا ہو کہ وہ تھوک سے بچ جاتا ہو یا پھر نماز کی حالت میں بائیں جانب والا فرشتہ بھی دائیں جانب ہی چلا جاتا ہوگا۔علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی ’’فَأَحْسَنُ مَا یُجَابُ بِہٖ‘‘ کہتے ہوئے یہی تیسرا جواب ہی پسند کیا ہے۔[4]
Flag Counter