Maktaba Wahhabi

557 - 699
﴿وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ﴾[ھود:114] ’’اور(اے پیغمبر!)دن کے دونوں کناروں پر(فجر و عصر یا فجر و مغرب کی)نماز درستی سے ادا کریں اور رات کے حصوں میں(عشاء یا مغرب و عشاء)یہ اس لیے کہ نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں،یہ ان لوگوں کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت مانتے ہیں۔‘‘ نیکیوں سے برائیاں کیسے معاف ہوتی ہیں اور کس نیکی سے کتنی بلکہ کتنے سالوں کی برائیاں معاف کر دی جاتی ہیں؟ ان کی تفصیل ذکر کرنا شروع کر دی جائے تو بات پھر طویل ہوجائے گی،لہٰذا یہاں چند اشارات پر ہی اکتفا کرتے ہیں کہ زیادہ نہیں تو آپ کم از کم سورت ہود کی اسی آیت کا پس منظر یا سببِ نزول ہی کتبِ تفسیر سے پڑھ لیں یا پھر وضو کے فضائل،نمازِ پنج گانہ کے فضائل،عمرے کے فضائل،رمضان کے فضائل،یومِ عرفہ و عاشوراء کے روزے کے فضائل،جمعہ کے فضائل،حج کے فضائل اور دو مسلمانوں کے باہم مل کر سلام و مصافحے کے فضائل ہی پڑھ لیں،بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہوجائے گی کہ اﷲ کس طرح نیکیوں کی وجہ سے برائیوں کو معاف کرتا ہے۔ بھول چوک معاف: وہ برائیاں جو عمداً یعنی جان بوجھ کر کی جاتی ہیں،جو فطرت انسانی کے تقاضوں کے تحت شیطان کے بہکاوے میں آکر ہوجاتی ہیں،انھیں بھی اﷲ تعالیٰ موقع بہ موقع نیک اعمال کے ذریعے سے معاف کرتا رہتا ہے،جبکہ وہ افعال جو ناجائز تو ہیں،لیکن ان کے ارتکاب میں انسان کی مرضی کو کوئی دخل نہیں ہوتا،وہ اضطراری و غیر اختیاری حالت میں ہوں یا بھول چوک سے ان کا ارتکاب ہوجائے اور ارتکاب کرنے والے کو بوقتِ ارتکاب پتا بھی نہ ہو کہ مجھ سے کوئی ایسا فعل سرزد ہوئے جارہا ہے،جو ممنوع ہے،تو ایسی بھول چوک پر رب غفور و رحیم ویسے ہی کوئی مؤاخذہ نہیں کرتا،یعنی ایسے امور پر کوئی پکڑ ہی نہیں ہوتی،کیونکہ کتبِ فقہ و اصول میں ایک جملہ حدیث کے طور پر معروف ہے،جس میں ہے: {رُفِعَ عَنْ أُمَّتِيْ الْخَطَأُ وَالنِّسْیَانُ}’’میری امت کی بھول چوک معاف کر دی گئی ہے۔‘‘ ایسے ہی الکامل لابن عدی میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے:
Flag Counter