Maktaba Wahhabi

568 - 699
ایسے ہی مسند احمد(4/447-5/3-4-5)میں ایک حدیث ہے،جس میں بنی اسرائیل کے ایک شخص کا واقعہ مذکور ہے،جس نے اپنے بچوں کو وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد مجھے آگ میں جلا کر میری راکھ کو ہوا میں اڑا دینا اور اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے وہ کہتا ہے: {لَعَلِّيْ أَضِلُّ اللّٰہَ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی} ’’شاید(ایسا کرنے سے)میں اﷲ تبارک وتعالیٰ سے اوجھل رہ سکوں اور اس کے حضور پیش ہونے سے بچ جاؤں۔‘‘ گویا قرآنِ کریم اور احادیث کے یہ استعمالات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ لفظ ’’ضَلَّ‘‘ انسانی گمشدگی کے لیے بھی بولا جاتا ہے،اگرچہ اس کا زیادہ تر استعمال ذہول یا راہِ راست سے بھٹک جانے کے لیے ہے،اسی لیے عموماً ان الفاظ کا ترجمہ گمراہ ہوجانے اور گمراہی سے کیا جاتا ہے۔ اس ساری لغوی بحث و تفصیل کے پیشِ نظر کہا جا سکتا ہے کہ لغوی دلیل پر مبنی جس بات کو بنیاد بنا کر گمشدہ بچوں کے متعلق مساجد میں اعلان جائز قرار دیا جاتا ہے تو وہ بات یا دلیل ہی سرے سے بے بنیاد ہے،لہٰذا اس دلیل پر اعتماد کرتے ہوئے ایسے اعلانات کو جائز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دوسری دلیل: بعض اہلِ علم نے یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ بقاے نفس اور احترامِ آدمیت کے پیشِ نظر بچوں کی گمشدگی کے اعلان کو جائز ہونا چاہیے اور پھر اسے ایک فقہی قاعدے کے تحت لانے کی کوشش کی جاتی ہے،جس میں کہا گیا ہے: {اَلضُّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحْذُوْرَاتِ} ’’ضرورتیں ممنوع اشیا کو بھی مباح کر دیتی ہیں۔‘‘ جائزہ: ان کی یہ دوسری دلیل بھی پہلی دلیل کی طرح ہے،کیونکہ اس قاعدہ کلیہ کی نوبت صرف اسی صورت میں آتی ہے،جب اس کا کوئی دوسرا متبادل انتظام نہ ہوسکتا ہو،لیکن ہمارے یہاں عموماً اور غالباً کوئی ایسی جائز ضرورت یا مجبوری نہیں ہوتی،جس کی بنا پر ہم احادیث میں وارد صریح حکمِ امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس امر کو جائز قرار دیں،کیونکہ مسجد سے باہر اس کا معقول بندوبست ہو
Flag Counter