Maktaba Wahhabi

592 - 699
ابو داود صحیح ابن حبان،سنن بیہقی اور مسند احمد میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: {مَنْ أَکَلَ مِنْ ھٰذِہِ الشَّجَرَۃِ الْخَبِیْثَۃِ فَلَا یَقْرُبَنَّ مُصَلَّانَا حَتّٰی یَذْھَبَ رِیْحُھَا}[1] ’’جس نے اس خبیث پودے میں سے کچھ کھایا تو وہ تب تک ہماری جا نماز کے قریب نہ آئے جب تک اس کی بو زائل نہ ہو جائے۔‘‘ لہسن،پیاز،مولی اور گندنا وغیرہ بدبودارچیزیں کھاتے ہی مسجد میں نہیں جانا چاہیے،بلکہ یہ چیزیں اگر کھانا ہی ہوں تو اتنا پہلے کھائیں کہ مسجد میں جانے تک ان کی بد بو زائل ہو چکی ہو یا پھر کوئی ایسی میٹھی چیز یا کھانا استعمال کرنا چاہیے جو ان کی بدبو کو ختم کر دے،تاکہ مسجد میں آس پاس کے نمازیوں کو اذیت نہ ہو اور اگر کوئی دوسرا نہ ہو تو کم از کم اﷲ کے فرشتے تو ہوتے ہی ہیں،انھیں اس بدبوسے تکلیف نہ ہو۔ مذکورہ ترکاریوں کو پکالینے کے بعد ان کا حکم: یہاں یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ ان ترکاریوں کو کھانے کے بعد مسجد میں جانے کی ممانعت صرف اس شکل میں ہے جب انھیں کچا کھایا جائے اور منہ سے ان کی بو پھوٹتی رہے۔اگر تاخیر یا کسی چیز کے استعمال سے ان کی بو زائل ہو جائے تو پھر ممانعت نہیں ہوگی،کیونکہ ممانعت کا اصل سبب بدبو ہے نہ کہ یہ ترکاریاں۔اس بات کی صراحت بعض طُرقِ حدیث میں بھی وارد ہوئی ہے کہ یہ حکم صرف ان ترکاریوں کے کچا کھائے جانے کی صورت میں ہے یا ان کی بدبو کے وجود کی صورت میں ہے۔چنانچہ اس سلسلے میں ذکر کی گئی احادیث میں سے پہلی حدیث جو صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود،مسند ابو عوانہ،سنن بیہقی اور مسند احمد کے حوالے سے ذکر کی گئی ہے۔اس حدیث کے آخری حصے میں ہے: {قُلْتُ مَا یَعْنِيْ بِہٖ؟}’’میں نے پوچھا کہ اس سے آپ(نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی)کیا مراد ہے؟ تو انھوں نے بتایا: {مَا أَرَاہُ إِلَّا نَیِّئَۃً}’’میرے خیال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کچے لہسن سے تھی۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھا ہے کہ یہ سوال کس کی طرف سے ہے اور جواب کس نے دیا ہے،اس کا ٹھیک ٹھیک پتا تو نہیں چل سکا،البتہ میرا خیال ہے کہ سوال ابن جریج نے کیا ہے
Flag Counter