Maktaba Wahhabi

598 - 699
عذر کی حالت میں: اس بو کی موجودگی میں اس کا کچا کھانا ٹھیک نہیں اور یہ حکم بھی خاص ان کے لیے ہے جو محض منہ کے ذائقے کے لیے اسے استعمال کریں۔اگر کوئی شخص کسی عذر کی وجہ سے اسے استعمال کرتا ہے تو اسے اس کی اجازت دی گئی ہے،جیسا کہ مجبوری کی حالت میں ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے اسے استعمال کیا اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا عذر قبول فرمایا۔چنانچہ سنن ابو داود،صحیح ابن حبان و ابن خزیمہ،مسند احمد اور بیہقی میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ’’أَکَلْتُ ثُوْمًا،ثُمَّ أَتَیْتُ النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَوَجَدْتُہٗ قَدْ سَبَقَنِيْ بِرَکْعَۃٍ فَلَمَّا صَلّٰی قُمْتُ أَقْضِي،فَوَجَدَ رِیْحَ الثُّوْمِ فَقَالَ:مَنْ أَکَلَ ھٰذِہِ الْبَقْلَۃَ،فَلَا یَقْرُبَنَّ مَسْجِدَنَا حَتّٰی یَذْھَبَ رِیْحُھَا‘‘ ’’میں نے ایک دن لہسن کھایا اور مسجدِ نبوی میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔میرے پہنچنے تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ایک رکعت پڑھ چکے تھے تو میں اپنی بقیہ رکعت پڑھنے لگا۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لہسن کی بو محسوس کی اور فرمایا:جو شخص یہ ترکاری کھائے،وہ اس کی بو زائل ہوجانے تک ہماری مسجد کے قریب نہ آئے۔‘‘ حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے جب اپنی نماز مکمل کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم: {إِنَّ لِيْ عُذْرًا}’’میں نے عذر و مجبوری کی وجہ سے لہسن کھایا ہے۔‘‘ {نَاوِلْنِيْ یَدَکَ،فَوَجَدْتُّہٗ سَھْلًا فَنَاوَلَنِيْ یَدَہٗ فَأَدْخَلْتُھَا مِنْ کُمِّيْ إِلٰی صَدْرِيْ فَوَجَدَہٗ مَعْصُوْبًا} ’’مجھے اپنا دستِ مبارک پکڑائیں تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت آسان پایا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دستِ مبارک مجھے پکڑا دیا،جسے میں نے گریبان کے راستے اپنے سینے پر جا رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے کو اس حال میں پایا کہ اس پر پٹی بنڈھی ہوئی تھی۔‘‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
Flag Counter