Maktaba Wahhabi

608 - 699
جواز باقی نہیں رہتا۔ یہ سب امور غور و فکر اور سوچ بچار کرنے والوں کے لیے ہیں،ورنہ ضد اور ہٹ دھرمی کا تو کوئی علاج ہی نہیں،انھیں تو آپ قرآنِ کریم کی آیات اور صحیح احادیث سے ثابت شدہ حرام چیز شراب کے بارے میں کہیں تو وہ پھر بھی کوئی نہ کوئی راستہ نکالنے کے لیے ہاتھ پاؤں ماریں گے۔اﷲ تعالیٰ تمباکونوشی کرنے والوں اور خصوصاً نمازیوں کو اسے ترک کرنے کی توفیق سے نوازے۔آمین ثم آمین مسجد میں کھانا پینا: کچھ امور ایسے بھی قابلِ ذکر ہیں،جن کے بارے میں انسان کو بادی النظر میں ایسے لگتا ہے کہ جیسے یہ تقدس و احترامِ مسجد کے منافی ہوں گے اور شرعاً ممنوع بھی۔جبکہ درحقیقت ایسا نہیں،بلکہ وہ شرعاً جائز ہوتے ہیں اور بعض شرائط و آداب کو پیشِ نظر رکھا جائے تو پھر ان میں کوئی حرج نہیں ہے۔ان جائز امور میں سے ایک مسجد میں کھانا پینا بھی ہے،بشرطیکہ آدابِ مسجد کا خیال رکھا جائے اور اسے ہر قسم کی غلاظت سے اور کھانے کے اجزا سے محفوظ رکھا جائے۔یہ اس طرح بآسانی ممکن ہے کہ مسجد میں بیٹھ کر اگر کبھی کھانے کی نوبت آجائے تو کسی کونے میں کوئی دستر خوان وغیرہ بچھا کر اس پر کھانا رکھیں اور احتیاط کے ساتھ کھا لیں۔مسجد کو کھانے کے اجزا اور سالن وغیرہ سے محفوظ رکھیں،تاکہ وہ بعد میں چیونٹیوں وغیرہ کی آمد کا سبب نہ بننے پائے۔اس طرح کی احتیاط پر عمل کر کے مسجد میں بیٹھ کر کھانا کھایا جائے اور یہ محض بوقتِ ضرورت ہو تو جائز ہے،لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ مسجد کو ہوٹل ہی بنا لیں۔گرمی کے موسم میں کہیں سے پارسل میں کھانا لیا اور مسجد کی ائیرکنڈیشنڈ فضا میں جا بیٹھے اور دستر خوان بچھا کر کھانے لگے،ایسا نہیں بلکہ یہ محض بے گھر اور مسافر قسم کے لوگوں کے لیے اور کبھی کبھار ہے۔چنانچہ سنن ابن ماجہ،صحیح ابن حبان،مسند احمد اور زوائد المسند لابن الامام احمد میں حضرت عبداﷲ بن حارث بن جزء رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: {کُنَّا نَأْکُلُ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فِي الْمَسْجِدِ الْخُبْرَ وَاللَّحْمَ،ثُمَّ نُصَلِّيْ وَلَا نَتَوَضَّأُ}[1]
Flag Counter