Maktaba Wahhabi

643 - 699
کے سردار ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے کہ اسے مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ستون کے ساتھ تین دن باندھے رکھا گیا۔[1] یہ تمام احادیث و واقعات اس بات کا قرینہ ہیں کہ جس آیت اور جن احادیث میں کفار و مشرکین کو نجس کہا گیا ہے،اس سے معنوی یا عقیدے کی نجاست مراد ہے اور ان سے ترکِ موالات کروانا اور نفرت دلانا مقصود ہے،نہ یہ کہ وہ حسی و جسمانی طور پر نجس ہیں۔ اہلِ کتاب و غیر اہلِ کتاب میں عدمِ فرق: ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ کے واقعے سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اہلِ کتاب اور غیر اہلِ کتاب میں اس معاملے میں کوئی فرق نہیں،بلکہ وہ دونوں یکساں ہیں،کیونکہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ اہلِ کتاب(یہود و نصاریٰ)میں سے نہیں تھے،بلکہ(اس وقت)ایک عام غیر مسلم مشرک تھے۔[2] امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں باقاعدہ ایک باب باندھا ہے: ’’باب دخول المشرک المسجد‘‘ ’’مسجد میں مشرک کے داخلے کا بیان۔‘‘ اس باب کے تحت وہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ والی حدیث ہی لائے ہیں،جس سے ان کے رجحان کا پتا چل رہا ہے کہ ان کے نزدیک بھی غیر مسلم یعنی کافر و مشرک اہلِ کتاب و غیر اہلِ کتاب مسجد میں داخل ہوسکتا ہے۔امام نووی نے جمہور علماے سلف و خلف سے نقل کیا ہے کہ کافر نجس العین نہیں ہے۔امام العز بن عبدالسلام کا بھی یہی قول ہے۔[3] علامہ مقبلی نے ’’المنار‘‘ میں سورت توبہ کی آیت﴿اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ﴾[التوبۃ:28] سے کفار کی نجاست پر استدلال کو ’’وہم‘‘ سے تعبیر کیا ہے اور آگے اس کی وضاحت بھی کی اور بتایا ہے کہ یہ تو اﷲ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو ایک نو ایجاد اصطلاح پر محمول کرنے والی بات ہے،لیکن امام شوکانی رحمہ اللہ نے ان کی اس بات سے کچھ اختلاف کیا ہے،بالکلیہ موافقت نہیں کی۔ ان کا اختلاف یا عدمِ موافقت صرف علت یا سبب سے متعلق ہے،ورنہ اصل مسئلے میں وہ خود
Flag Counter