Maktaba Wahhabi

645 - 699
بھی مسلمانوں پر مشتمل ہو یا کم از کم تعمیرِ مسجد کے لیے مسلمان ہوں،خصوصاً انجینئر وغیرہ نگرانی کرنے والے تو ضرور ہی مسلمان ہوں،کیونکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے اور اس کی زندہ مثال بھی متحدہ عرب امارات کے شہر ام القیوین میں بنائی گئی ایک بہت بڑی جامع مسجد کی شکل میں موجود ہے،جسے کسی متعصب غیر مسلم نے اپنی نگرانی میں تعمیر کروایا تو اس نے اس مسجد کے بڑے ہال اور دوسرے چھوٹے گنبدوں میں ایسے خبثِ باطن کا اظہار کیا ہے کہ سورج موجود ہو تو آپ مسجد کے چاروں طرف جدھر سے بھی گزریں،مسجد کے گنبدوں کی گولائی اور پینٹنگ ایسی کی ہے کہ سورج کی روشنی سے اس پر عیسائیوں کا مذہبی شعار صلیب یعنی سولی یا کراس بنا رہتا ہے،ایسے لوگوں کی ایسی شیطنت سے بچنے کے لیے ایسے لوگوں کو تعمیرِ مسجد سے دور ہی رکھنا چاہیے۔ مسجد میں رہایش: اس سلسلے میں ہمارے استاذِ گرامی شیخ الحدیث مولانا حافظ ثناء اﷲ مدنی(شیخ الحدیث جامعہ لاہور الاسلامیہ)کا فتویٰ ’’الاعتصام‘‘ میں شائع ہوا ہے،جسے یہاں افادۂ عام کے لیے مع الاستفتاء نقل کیا جا رہا ہے۔ سوال: ایک صاحب نے اپنے مکان کے ساتھ والی جگہ مسجد کے لیے وقف کی اور دوسرے آدمی کو اس مسجد کی تعمیر کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کو کہا۔دوسرے آدمی نے مختلف علاقوں میں جا کر چندہ اکٹھا کیا اور وہاں دو منزلہ مسجد تعمیر کروائی۔ان دو منزلوں کے درمیان ایک گیلری بھی بنوائی،نیچے والی جگہ اور گیلری مرد حضرات کے لیے اور دوسری منزل عورتوں کے لیے تھی۔یہ آدمی پہلے کرائے کے مکان میں رہتا تھا،اس نے دوسری منزل جہاں عورتیں نماز ادا کرتی تھیں،انتظامیہ کے افراد کی منت سماجت کر کے دو کمرے بنوائے اور اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ پانچ سال سے رہایش پذیر ہے۔ان صاحب کا مسجد سے آدھ فرلانگ دور اپنا ذاتی مکان ہے(جو کچھ عرصہ ہوا تعمیر کروایا ہے)یہ چار مرلے کا مکان ہے،اس میں ہر قسم کی سہولت موجود ہے،لیکن وہ وہاں جانے کا نام نہیں لیتا۔اکثر لوگ اس بات پر اعتراض کرتے ہیں تو وہ دلیل میں مسجد کی خدمت کرنے کا بہانہ تراشتا اور کہتا ہے میرے سوا کوئی خدمت نہیں کر سکتا۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ جو صاحب نماز کی امامت کرواتے ہیں،ان کا بھی مسجد کے محراب کے
Flag Counter