Maktaba Wahhabi

648 - 699
بالخصوص صاحبِ ملک کو اپنے مکان کی آبادکاری پر توجہ دینی چاہیے،تاکہ اﷲ کی عطا کردہ نعمت سے کما حقہ مستفید ہوسکے۔باقی رہا بلّوں کا معاملہ،سو وہ بجلی میں اشتراک کی صورت میں انتظامیہ کی رضا مندی سے طے پا سکتا ہے،جس پر طرفین کا اتفاق ہو،اس کے مطابق عمل ہوگا۔[1] مسجد میں قضا اور لعان وغیرہ: غیر مسلموں کے مسجد میں داخل ہونے کے جواز کا تذکرہ کرتے ہوئے امام خطابی رحمہ اللہ کی معالم السنن شرح سنن ابی داود سے ہم ایک اقتباس ذکر کر چکے ہیں،جس میں انھوں نے مشرک کے بوقتِ ضرورت مسجد میں داخل ہونے کی مختلف صورتیں بیان کی ہیں،جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ غیر مسلم اور مشرک نے کوئی کیس قاضی کی عدالت میں دائر کروانا ہو اور قاضی مسجد میں بیٹھا ہو تو اس مشرک کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے حق کو ثابت کرنے کے لیے مسجد میں داخل ہو۔ امام خطابی رحمہ اللہ کی اس بات پر بادی النظر میں کچھ تعجب ہوتا ہے کہ یہی کیا ضروری ہے کہ وہ مسجد میں جاکر ہی قاضی کے سامنے اپنا مسئلہ رکھ دے؟ وہ تھوڑا انتظار بھی کر سکتا ہے کہ قاضی صاحب مسجد سے نکل آئیں اور جہاں کچہری لگا کر بیٹھیں،وہاں وہ اپنا کیس پیش کرے،لیکن حقیقت یہ ہے کہ تعجب والی کوئی بات نہیں،کیونکہ سلف صالحین کے عہد میں قاضی حضرات مسجد میں بیٹھ کر فیصلے کیا کرتے تھے اور یہ جائز بھی ہے،البتہ نفاذِ حدود کے لیے مجرم کو مسجد سے نکال لیا جاتا تھا،چنانچہ اس سلسلے میں ’’صحیح البخاري،کتاب الأحکام:باب من حکم في المسجد‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ’’أَتٰی رَجُلٌ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَھُوَ فِيْ الْمَسْجِدِ،فَنَادَاہُ فَقَالَ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ! إِنِّيْ زَنَیْتُ،فَلَمَّا شَھِدَ عَلٰی نَفْسِہٖ أَرْبَعًا،قَالَ:أَبِکَ جُنُوْنٌ؟ قَالَ:لَا،قَالَ:اِذْھَبُوْ بِہٖ فَارْجُمُوْہُ‘‘[2] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکار کر کہا:اے اﷲ کے رسول(صلی اللہ علیہ وسلم !)مجھ سے زنا کا
Flag Counter