Maktaba Wahhabi

650 - 699
اور ’’کتاب الأحکام:باب من قضٰی،و لاعن في المسجد‘‘ میں حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ’’إِنَّ رَجُلًا مِّنَ الْأَنْصَارِ جَائَ إِلَی النَّبِيَّ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَقَالَ:أَرَأَیْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِہٖ رَجُلًا،أَیَقْتُلُہٗ؟ فَتَقْتُلُوْنَہٗ أَمْ کَیْفَ یَفْعَلُ؟‘‘ ’’انصار میں سے ایک صحابی(حضرت عویمر عجلانی رضی اللہ عنہ)نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پوچھا کہ اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے آدمی کو دیکھے تو کیا وہ اسے قتل کر دے؟ تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے قتل کر دیں گے یا پھر وہ کیا کرے؟‘‘ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: {قَدْ أَنْزَلَ اللّٰہُ فِیْکَ وَفِيْ صَاحِبَتِکَ فَاذْھَبْ فَأْتِ بِھَا} ’’اﷲ نے تمھارے اور تمھاری عورت کے بارے میں حکم نازل فرما دیا ہے،جاؤ اسے لے آؤ۔‘‘ حضرت سہل فرماتے ہیں کہ پھر ان دونوں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے(مسجد ہی میں)لعان کیا اور میں دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ وہیں موجود تھا۔[1] لعان: لعان کیا ہوتا ہے؟ اس کی تعریف یہ ہے کہ شوہر اگر اپنی بیوی پر بدچلنی کا الزام لگائے اور بدکاری پر گواہیاں نہ ہوں تو وہ دونوں اپنے اپنے سچے ہونے کی چار چار قسمیں کھاتے ہیں اور جھوٹے ہونے کی شکل میں اپنے پر لعنت کی پانچویں مرتبہ بد دعا کرتے ہیں،جسے لعان کہا جاتا ہے اور ساتھ ہی طلاق ہوجاتی ہے،اس کی تفصیل کا موقع نہیں،ہاں اس کے احکام کی تفصیلات کتبِ حدیث خصوصاً صحیح بخاری مع الفتح کتاب الطلاق،باب اللعان(9/438۔464)میں دیکھی جا سکتی ہیں،اس حدیث مذکور سے بھی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسجد میں فیصلہ صادر فرمانا ثابت ہوتا ہے۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم میں سے حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کا واقعہ صحیح بخاری میں تعلیقاً مروی ہے،چنانچہ مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ان کے لعان کروانے کے بارے میں امام بخاری رحمہ اللہ ’’باب من قضیٰ ولاعن في المسجد‘‘ میں فرماتے ہیں:
Flag Counter