Maktaba Wahhabi

659 - 699
ہے۔[1] البتہ دیگر شواہد وغیرہ کی وجہ سے بعض کبار محدّثینِ کرام رحمہم اللہ نے اسے بھی حسن قرار دیا ہے۔[2] غرض کہ حافظ ابن حجر عسقلانی اور خصوصاً امام شوکانی رحمہ اللہ کا رجحان اس طرف ہے کہ مساجد میں حدود و تعزیرات کا نفاذ نہیں ہونا چاہیے،بلکہ یہ سزائیں مسجد سے باہر ہی دی جائیں تو بہتر ہے۔ مسجد میں آواز بلند کرنا: آدابِ مسجد میں سے ایک ادب یہ بھی ہے کہ مسجد میں آواز بلند نہ کی جائے،بلکہ اگر کوئی مباح بات کرنی پڑے تو مسجد کے تقدس و احترام کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے انتہائی دھیمے لہجے سے بات کی جائے۔مسجد میں آوازیں بلند کرنے کی ممانعت کے بارے میں صحیح بخاری ’’کتاب الصلاۃ:باب رفع الصوت في المسجد‘‘ میں حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ’’ كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِيْ رَجُلٌ فَنَظَرْتُ فَإِذَا ھُوَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ،فَقَالَ:إذْھَبْ فَائَتِنِيْ بِھٰذَیْن،فَجِئَتُہٗ بِھِمَا،قَالَ:مَنْ أَنْتُمَا؟ أَوْ مِنْ أَیْنَ أَنْتُمَا؟ قَالَا:مِنْ أَھْلِ الطَّائِف،قَالَ:لَوْ کُنْتُمَا مِنْ أَھْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُکُمَا،تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَکُمَا فِيْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ ‘‘ [3] ’’میں مسجد میں کھڑا تھا کہ مجھے کسی نے کنکری ماری،میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ تھے،انھوں نے فرمایا:جاؤ اور ان دونوں آدمیوں کو میرے پاس لاؤ۔میں انھیں جاکر لے آیا تو حضرتِ فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:تم کون ہو؟ یا پوچھا کہ تم کہاں سے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہم طائف سے آئے ہیں۔حضرت فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اگر تم یہاں ہمارے شہر سے ہوتے تو تمھیں تکلیف دہ سزا دیتا۔تم نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجدِ مبارک میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو!‘‘ شارح بخاری حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں اس اثرِ فاروقی رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھا ہے کہ بظاہر تو یہ اثر یعنی حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ کا فعل ہے،لیکن اس کا حکم مرفوع حدیث کا ہے کہ یہ
Flag Counter