Maktaba Wahhabi

675 - 699
نہ ہوگا اور ایسی حالت میں ایسا کوئی شخص ولی بھی نہیں ہوسکتا،کیونکہ درجۂ ولایت کو پانے کے لیے روحانی و جسمانی اور کپڑوں کی صفائی و ستھرائی کے ساتھ ساتھ افعال خیر و اعمالِ صالحہ اور ایمانِ کامل و عقیدۂ صحیحہ بنیادی عنصر ہیں،لہٰذا اگر کوئی ولایت کا دعویٰ کرے اور فرائض ادا نہ کرے اور محارم و ممنوعات سے اجتناب نہ کرے،بلکہ اس کے برعکس افعال کا ارتکاب کرے اور ساتھ ہی یہ دعویٰ بھی کرے کہ اس پر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ضروری نہیں،بلکہ وہ ایسی منازل سے آگے گزر چکا ہے تو ایسا شخص کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے نہ کہ ولی اﷲ۔مزید تفصیل کے لیے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب ’’الفرقان بین أولیاء الرحمن و أولیاء الشیطان‘‘ دیکھی جا سکتی ہے۔ ایسے مجذوب لوگوں کو ولی ماننا صحیح نہیں ہے اور نہ ایسے لوگوں کو مساجد کے حجروں یا برآمدوں میں جگہ دینی چاہیے،تاکہ مساجد کا تقدس و احترام مجروح نہ ہو۔ مساجد میں بلیاں چھوڑنا: یہ لوگ چاہے دیوانے ہی کیوں نہ ہوں،پھر بھی انسان تو ہوتے ہیں۔حیرت تو ہمارے ان بھائیوں پر ہے،جو مساجد میں موذی قسم کی بلیاں چھوڑ آتے ہیں۔یہ بعض علاقوں میں مشاہدے میں آنے والی بات بھی ہے اور بعض اہلِ علم نے بھی اپنی کتاب میں یہ حیرت ناک بات لکھی ہے،چنانچہ امام ابن الحاج نے اپنی کتاب ’’المدخل‘‘ میں لکھا ہے: ’’پہلے لوگ اﷲ کے گھروں(مساجد)کی توقیر و احترام کیا کرتے تھے اور انھیں نامناسب اشیا سے پاک و صاف رکھتے تھے،لیکن اب معاملہ مختلف ہے۔موجودہ دور میں لوگ مسجدوں میں بلیوں کو جگہ دیتے ہیں،جن سے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے،مسجد میں گندگی پھیلتی ہے اور مسجد میں بلیوں کے گندگی پھیلانے کی طرف توجہ دیے بغیر کسی کے گھر میں موذی قسم کی بلی ہو تو وہ سیدھا اسے مسجد میں چھوڑ آتا ہے۔‘‘ إِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔[1] مجذوب و مجنون آدمی اور بلی یا کسی بھی جانور کو مسجد میں داخل کرنے کو امام نووی رحمہ اللہ کے حوالے سے علامہ زرکشی نے بھی مکروہ لکھا ہے۔[2]
Flag Counter