Maktaba Wahhabi

699 - 699
ہیں،لہٰذا جواز کے پیش نظر مرنے والوں کے لیے ان اجتماعات کی دعائیں لے لی جاتی ہیں اور یقینا خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی نمازِ جنازہ حرمین شریفین میں سے کسی بھی ایک میں پڑھی جائے،لیکن ایں سعادت بزورِ بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشندہ مسجد سے باہر نمازِ جنازہ کی افضلیت: مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں نمازِ جنازہ کے افضل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غالب و اکثر اوقات میں نمازِ جنازہ مسجد سے باہر اس غرض کے لیے بنائی گئی مخصوص جگہ ہی پر پڑھا کرتے تھے،جو فتح الباری(3/99)میں حافظ ابن حجر کے بقول مسجدِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی مشرقی یا بقیع الغرقد والی جانب سے بالکل متصل ہی تھی اور اس پر دلالت کرنے والی کئی احادیث ہیں،مثلاً صحیح بخاری میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: {إِنَّ الْیَھُوْدَ جَائُ وْا إِلٰی النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم بِرَجُلٍ مِنْھُمْ وَامْرَأَۃٍ زَنَیَا فَأَمَرَا بِھِمَا فَرُجِمَا قَرِیْبًا مِنْ مَوْضِعِ الْجَنَائِزِ عِنْدَ الْمَسْجِدِ}[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی اپنا ایک آدمی اور عورت لائے،جنھوں نے زنا کا ارتکاب کیا تھا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ان دونوں کو مسجد کے قریب ہی جنازہ گاہ کے پاس سنگسار کر دیا گیا۔‘‘ اس حدیث میں جنازہ پڑھنے کا ذکر تو نہیں،لیکن جنازہ گاہ کا تذکرہ آیا ہے۔صحیح بخاری و مسلم،سنن ابو داود،نسائی،ابن ماجہ و بیہقی اور مسند احمد و طیالسی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے،اور صحیح بخاری و مسلم،نسائی و بیہقی اور مسند احمد و طیالسی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے،اور صحیح مسلم،سنن ترمذی،نسائی،ابن ماجہ،صحیح ابن حبان،سنن بیہقی اور مسند احمد و طیالسی میں حضرت حذیفہ بن اُسید رضی اللہ عنہ سے،اور سنن ابن ماجہ و مسند احمد میں حضرت مجمع بن حارثہ انصاری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: ’’أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَعٰی النَّجَاشِيَّ فِيْ الْیَوْمِ الَّذِيْ مَاتَ فِیْہِ خَرَجَ إِلَی الْمُصَلّٰی فَصَفَّ بِھِمْ وَکَبَّرَ أَرْبَعًا‘‘
Flag Counter