Maktaba Wahhabi

701 - 699
{کُنَّا جُلُوْساً بِفِنَائِ الْمَسْجِدِ حَیْثُ تُوْضَعُ الْجَنَائِزُ،وَرَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بَیْنَ ظَھْرَانَیْنَا} ’’ہم مسجد کے سامنے والے صحن میں اس جگہ بیٹھے تھے،جہاں جنازے رکھے جاتے ہیں اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہمارے مابین موجود تھے۔‘‘ یہ حدیث آگے بھی ہے،لیکن محلِ شاہد انہی میں آگیا ہے۔غرض کہ ان سب احادیث کا مجموعی مفاد یہ ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غالب حالات میں نمازِ جنازہ مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں پڑھا کرتے تھے اور یہی اصل سنت ہونے کی وجہ سے افضل بھی ہے،لیکن چونکہ کبھی کبھار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں بھی نمازِ جنازہ پڑھی ہے،جیسا کہ صحیح مسلم اور دیگر کتبِ حدیث میں ہے،لہٰذا وہ بھی جائز ہے،اس کی عدمِ صحت یا کراہت والی کوئی بات نہیں ہے۔[1] مانعین کی دلیل اور اس کا جائزہ: ہم ذکر کرچکے ہیں کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتِ مبارکہ تو یہ تھی کہ نمازِ جنازہ مسجد سے باہر جنازہ گاہ میں پڑھا کرتے تھے،البتہ کبھی کبھار مسجد میں بھی پڑھ لیتے تھے اور یہ دونوں طرح ہی جائز ہے،البتہ افضل مسجد سے باہر ہی ہے۔اکثر ائمہ و فقہا اور عام محدّثینِ کرام کا یہی مسلک ہے،جن کا استدلال صحیح مسلم اور دیگر کتب میں وارد صحیح احادیث و آثار سے ہے،جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور غیر مدنی فقہا سے مروی دوسرے قول کے مطابق امام مالک رحمہ اللہ کا بھی یہ مسلک ہے کہ مسجد میں نمازِ جنازہ صحیح نہیں ہے،ان کا استدلال سنن ابو داود و ابن ماجہ،مسند احمد،سنن بیہقی،مصنف ابن ابی شیبہ اور معانی الآثار طحاوی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً مروی اس حدیث سے ہے،جس میں ہے: {مَنْ صَلّٰی عَلَیٰ جَنَازَۃٍ فِي الْمَسْجِدِ فَلَا شَیْیَٔ لَہٗ}[2] ’’جس نے مسجد میں کسی کی نماز جنازہ پڑھی،اس کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے تہذیب السنن میں کہا ہے کہ یہ حدیث چار طُرق سے مروی ہے اور چاروں کے الفاظ ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ایک میں ہے:((فَلَا شَیْیَٔ}’’تو کچھ نہیں۔‘‘
Flag Counter