Maktaba Wahhabi

702 - 699
دوسرے میں ہے:((فَلَا شَیْیَٔ عَلَیْہِ}’’اس پر کچھ(گناہ)نہیں۔‘‘ تیسرے میں ہے:((فَلَا شَیْیَٔ لَہٗ}’’اس کے لیے کچھ نہیں۔‘‘ اور چوتھے میں ہے:((فَلَیْسَ لَہٗ أَجْرٌ}’’اسے کوئی اجر نہیں ملے گا۔‘‘[1] زاد المعاد میں بھی علامہ ابن قیم نے اس اختلافِ الفاظ کو ذکر کیا ہے،لیکن وہاں انھوں نے خطیب کی روایت سنن کے حوالے سے لکھا ہے کہ اصل میں یہ ہے: {فَلَا شَیْیَٔ عَلَیْہِ}[2] ’’اسے کوئی گناہ نہیں ہے۔‘‘ ان کے علاوہ دوسروں کی روایت میں((فَلَا شَیْیَٔ لَہٗ}ہے اور سنن ابن ماجہ میں((فَلَیْسَ لَہٗ شَیْیَٔ}اور یہی تفصیل علامہ زرکشی نے بھی ذکر کی ہے۔[3] تعارض کا حل: اس طرح ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مسجد میں جنازے کے جواز والی حدیث اور اس حدیث کے مابین بظاہر تضاد نظر آتا ہے،حالانکہ در حقیقت ایسا نہیں ہے،بلکہ اہلِ علم نے اس حدیث کے پانچ جوابات دیے ہیں،جن سے بظاہر نظر آنے والا تعارض رفع ہوجاتا ہے۔ پہلا جواب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی یہ عدمِ جواز کا پتا دینے والی حدیث ہی متنازع فیہ ہے،بلکہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے تو اسے ضعیف کہا ہے اور اس سے حجت لینے کو جائز قرار نہیں دیا،کیونکہ اسے روایت کرنے میں توامہ بنت امیہ کا آزاد کردہ غلام صالح منفرد ہے اور اس کے راویِ عدل ہونے میں اختلاف ہے،امام مالک رحمہ اللہ نے بھی اس پر جرح کی ہے اور امام بیہقی نے کہا ہے کہ یہ حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کی معارض نہیں ہوسکتی،کیونکہ اگر اسے صحیح بھی مان لیا جائے،تب بھی وہ اس سے بدرجہا زیادہ صحیح ہے۔[4] بہر حال علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے اسے حسن اور شیخ البانی نے صحیح قرار دیا
Flag Counter