Maktaba Wahhabi

703 - 699
ہے۔شیخ الارناؤوط نے بھی اسے قوی کہا ہے۔[1] لیکن پہلی حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا چونکہ اس سے بدرجہا صحیح تر ہے،لہٰذا ان کے مابین کوئی تعارض یا تضاد نہ رہا،کیونکہ صحیح یا حسن،صحیح تر کی معارض نہیں ہوسکتی۔ دوسرا جواب: اس کا دوسرا جواب وہی ہے جو علامہ ابن قیم رحمہ اللہ اور علامہ زرکشی رحمہ اللہ کے حوالے سے ہم ذکر کر آئے ہیں کہ اس حدیث کی روایت چار طرح کے الفاظ سے ملتی ہے اور ان میں سے صحیح تر الفاظ یہ ہیں: {فَلَا شَیْیَٔ عَلَیْہِ}’’مسجد میں جنازہ پڑھنے والے پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔‘‘ گویا اس حدیث میں مسجد میں نمازِ جنازہ کی ممانعت والی کوئی بات ہی نہ رہی۔ تیسرا جواب: اگر یہ حدیث صحیح بھی ہو،تب بھی ضروری ہے کہ اس کی تاویل کی جائے اور((فَلَا شَیْیَٔ لَہٗ}کا معنیٰ ’’فَلَا شَیْیَٔ عَلَیْہِ‘‘ لیا جائے کہ اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ہے،اس طرح دونوں قسم کی احادیث کا معنیٰ ایک ہی ہوجائے گا اور تناقض یا تضاد و تعارض خود بخود رفع ہوجائے گا۔اس تاویل کی گنجایش موجود ہے کہ ’’لہ‘‘ کو ’’علیہ‘‘ کے معنیٰ میں لیا جائے،حتیٰ کہ خود اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں ایک جگہ ایسا ہی کیا ہے،جو اس کی بہترین مثال ہے،چنانچہ سورت اسراء(بنی اسرائیل)میں ارشادِ الٰہی ہے: ﴿وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَھَا﴾[الإسراء:7] ’’اگر تم نے برائی کی تو اس کا وبال تمھاری جانوں پر آئے گا۔‘‘ مفسرین نے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہاں مراد یہ ہے: ’’وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَعَلَیْھَا‘‘ ’’اگر تم نے برائی کی تو اس کا وبال تمھاری جانوں پر آئے گا۔‘‘ یہاں ’’لھا‘‘ اور ’’عَلَیْھَا‘‘ کی بحث کچھ علمی سی ہے،جو اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں ہے،لہٰذا ہم اس سے صرفِ نظر کرتے ہیں۔
Flag Counter