Maktaba Wahhabi

706 - 699
نے کر دی ہے،جن کی تفصیل کے لیے فتح الباری(3/192 تا 198)دیکھی جا سکتی ہے۔ معلوم ہوا کہ مسجد میں جنازہ پڑھنے والے سستی کر جاتے ہیں اور وہیں سے صرف ایک قیراط ثواب لے کر واپس ہوجاتے ہیں،جبکہ جنازہ گاہ میں جانے والا ساتھ ہی تدفین میں بھی شرکت کر لیتا ہے اور دو قیراط ثواب پاتا ہے،اس طرح مسجد میں نماز پڑھنے والے کے ثواب میں کمی واقع ہوگئی۔ آگے امام خطابی لکھتے ہیں کہ اس کے علاوہ کسی کے جنازے میں شرکت کے لیے جو قدم قدم پر ثواب ملتا ہے،مسجد میں جنازہ ہونے کی صورت میں وہ بھی کم ہوجائے گا اور جنازہ گاہ دور ہوگی تو زیادہ قدم چلے گا اور ثواب بھی زیادہ ہوگا،اس طرح یہ احتمال بھی واضح ہوجاتا ہے کہ حدیثِ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے ثابت ہوجانے کی شکل میں مسجد میں نماز پڑھنے پر ثواب کم ہونے کا پتا دیا گیا ہے اور کچھ نہیں۔ پانچواں جواب: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث میں مسجد میں پڑھی گئی نمازِ جنازہ کے صحیح نہ ہونے کی تو کوئی دلیل ہی نہیں ہے،پھر یہ جواز پر دلالت کرنے والی احادیث کی معارض کیسے ہو سکتی ہے؟ امام طحاوی رحمہ اللہ کا دعواے نسخ اور اس کا جائزہ: یہاں تک تو بات تھی دو قسم کی احادیث میں جمع و تطبیق اور موافقت و مطابقت پیدا کرنے کی،تاکہ ان کے مابین بظاہر نظر آنے والا تعارض و تناقض یا تضاد رفع ہو اور سابقہ تفصیل سے وہ الحمد ﷲ رفع ہوگیا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ذکر کرتے چلیں کہ امام طحاوی رحمہ اللہ نے ترجیح کی بجائے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا والی حدیث جس سے مسجد میں نمازِ جنازہ کے واضح جواز کا پتا چلتا ہے،وہ منسوخ ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری سنت یا آخر الامرین مسجد میں نمازِ جنازہ کا ترک ہے۔ان کے نزدیک اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر مسجد میں نمازِ جنازہ کا جواز منسوخ نہ ہوا ہوتا تو پھر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مسجد میں نمازِ جنازہ پڑھنے پر نکیر و اعتراض نہ کرتے اور ان کا نکیر کرنا اس بات کا پتا دیتا ہے کہ انھیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی روایت کے برعکس(عدمِ جواز والی کسی)روایت کا علم ہو چکا تھا۔
Flag Counter