Maktaba Wahhabi

715 - 699
رویہ درست نہیں ہے۔‘‘[1] علامہ سبکی رحمہ اللہ کے اس بیان کی روشنی میں ان خادموں اور دربانوں کو اپنے رویے پر نظر ثانی کرنی چاہیے جو باوجود ضرورت کے مساجد ومدارس کے دروازے بند رکھتے ہیں اور صرف نماز باجماعت کے وقت ہی کھولتے ہیں۔اگر کوئی کسی دوسرے وقت ضرورت سے آئے تو یہ خود بخود موجود ہونے کے باوجود اندر داخل نہیں ہونے دیتے۔ علامہ جمال الدین قاسمی نے ’’إصلاح المساجد‘‘ میں لکھا ہے۔ ’’مساجد ومدارس کے دروازے بلا ضرورت بند رکھنا تو بالا اتفاق ناجائز ہے۔البتہ رات کے وقت چوری وغیرہ کے ڈر سے دروازے بند کرسکتے ہیں۔ایسی کسی ضرورت کے واقعی… یا غیر واقعی ہونے کا لحاظ بھی کرنا ہوگا۔‘‘ مسجد کے خادم یا دربان کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’کسی ایسی واقعی ضرورت کی وجہ سے مسجد کے دورازے بند کرنے کی صورت میں اس کا فرض ہے کہ وہ دروازے کے قریب سوئے،تاکہ کسی کے اٹھانے سے اٹھ سکے۔اسے جو تنخواہ ملتی ہے،وہ اسی لیے ملتی ہے کہ مسجد میں آنے والوں کو اس کی وجہ سے سہولت رہے۔اگر وہ اس کا لحاظ نہیں رکھے گا تو اس کی تنخواہ جائز نہیں ہوگی۔‘‘ یہ علامۂ شام شیخ محمد جمال الدین قاسمی کا فتویٰ ہے۔ متروک مسجد کا سامان اور زمین: آداب و احکامِ مسجد کے سلسلے میں ضروری باتیں ہم نے ذکر دی ہیں۔اس موضوع کی ایک آخری بات جو ہم ذکر کرنا چاہتے ہیں،یہ ہے کہ اگر کسی گاؤں یا کسی آبادی میں کوئی مسجد ہو اور وہ گاؤں یا آبادی مرورِ زمانہ کے بعد کسی بھی سبب سے اجڑ جائے،وہاں کوئی انسان آباد نہ رہے اور نہ کوئی نماز پڑھنے والا قریب قریب موجود ہو تو اس مسجد کا کیا کرنا ہے؟ نیز اگر کوئی مسجد کسی وجہ سے متروک ومعطل ہوجائے یعنی قریب ہی نئی مسجد تعمیر ہوجانے کی وجہ سے اس مسجد کو نماز سے بند کردیا گیا ہو تو اس مسجد کو کیا کرنا ہے؟ ان دونوں صورتوں میں مسجد کا کیا حکم ہے؟
Flag Counter