Maktaba Wahhabi

123 - 738
سے غرض یہ ہوتی ہے کہ گزرنے والے کو معلوم کرایا جائے کہ کوئی نماز پڑھ رہا ہے،جبکہ لکیر سے یہ غرض پوری نہیں ہوتی۔[1] حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ’’الاستذکار‘‘ لابن عبدالبر کے حوالے سے ’’التلخیص الحبیر‘‘ میں لکھا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور(امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد)علی بن مدینی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور خود حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بلوغ المرام میں کہا ہے کہ جس نے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے،اس کی بات صحیح نہیں،کیونکہ یہ حدیث حسن درجے کی ہے۔[2] امام ابو داود نے امام احمد سے نقل کیا ہے کہ امام موصوف سے بارہا لکیر لگانے کا طریقہ پوچھا گیا تو انھوں نے اپنے سامنے کمان کی طرح ہلال نما لکیر کھینچنے کو کہا۔البتہ انھوں نے ابن داود سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:’’اَلْخَطُّ بِالطُّوْلِ‘‘ ’’لکیر لمبائی میں کھینچی جائے۔‘‘ یعنی نمازی اپنی جاے سجدہ سے قبلے کی جانب لکیر لگائے۔امام ابو داود نے پھر امام احمد سے لکیر کا طریقہ نقل کیا ہے: ’’حَوْرًا دَوْرًا مِثْلَ الْہِلَالِ یَعْنِیْ مُنْعَطِفًا‘‘[3] ’’گولائی میں،جیسے ہلال ہوتا ہے۔‘‘ 8۔دیوار: جن اشیا کو سُترہ بنایا جا سکتا ہے،ان سب میں سے فقہا کے نزدیک پسندیدہ ترین سُترہ دیوار ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیوار کا سترہ بنائے نماز پڑھنے کے بارے میں احادیث ’’نمازی اور سُترے کے مابین فاصلہ‘‘ کے موضوع کے تحت ہم ذکر کر آئے ہیں،لہٰذا انھیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں،البتہ ’’الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘ کے حوالے سے یہ بات ضرور ذکر کریں گے کہ فقہاے شافعیہ نے سترے کے چار مراتب قرار دیے ہیں جن سے بلا وجہ عدول صحیح نہیں کہا گیا،اِلاَّ یہ کہ مجبوری ہو۔ان چار مراتب میں سے پہلا مرتبہ ان اشیا کو حاصل ہے جو طاہر و پاکیزہ اور ثابت و جامد ہوں،جیسے دیوار اور ستون ہیں،دوسرا مرتبہ گاڑے ہوئے عصا وغیرہ کا ہے اور تیسرا مرتبہ ہے نماز پڑھنے والے جاے نماز کو لپیٹ کر سامنے رکھ لینے کا،جبکہ وہ مسجد کا نہ ہو بلکہ اپنا ہو اور چوتھا درجہ لکیر کھینچنے کو دیا گیا ہے۔[4]
Flag Counter