Maktaba Wahhabi

126 - 738
مجموعی حیثیت کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ صحیح نہیں تو کم از کم حسن درجے کو پہنچ جاتی ہے۔اس لیے انھوں نے سننِ اربعہ کی صحیح و ضعیف کی تقسیم کے دوران میں اسے قسمِ صحیح میں وارد کیا ہے،جیسا کہ صحیح سنن ابی داود(1/ 134)اور صحیح سنن ابن ماجہ(1/ 158)دیکھی جا سکتی ہیں۔لہٰذا اس ممانعت والی اور صحیح بخاری کی جواز والی احادیث کے مابین بظاہر کچھ تضاد سا بن جاتا ہے،جسے اہل علم نے یوں زائل کیا ہے کہ ممانعت والی حدیث کو اس حال پر محمول کیا جائے،جب سونے والے سے کسی ایسے فعل یا حرکت کا ظہور ممکن ہو جو نمازی کو نماز سے غافل کر دے یا اس کی توجہ ہٹا دے۔چنانچہ امام بخاری کے رازدان حافظ ابن حجر اُن کا عندیہ بھانپتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کی مراد دراصل یہ ہے کہ اگر نمازی کو سامنے سوئے ہوئے شخص سے کسی ایسی چیز یا حرکت کا خطرہ نہ ہو تو اس کے سامنے نماز پڑھنے میں کوئی ممانعت و کراہت نہیں،ورنہ مکروہ ہے۔جبکہ امام مجاہد،طاؤس اور مالک رحمہ اللہ نے جو مکروہ کہا ہے تو وہ اسی حالت پر محمول ہوگا جب کوئی ایسا خدشہ ہو۔[1] ان دونوں طرح کی احادیث کے پیش نظر کراہت کے معاملے کو زیادہ سے زیادہ کراہت تنزیہی کہا جاسکتا ہے کہ سوئے ہوئے کے سامنے نماز نہ پڑھنا پڑھنے سے اولیٰ ہے۔لیکن جب کسی خدشے کا امکان نہ ہو اور سامنے سونے والی بیوی ہو تو پھر کوئی حرج نہیں،جبکہ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے بیوی کے ساتھ ہی ہر محرم رشتے دار کا یہی حکم بیان فرمایا ہے۔چنانچہ انھوں نے اپنی صحیح میں ایک عنوان یوں قائم کیا ہے: ’’ذِکْرُ الْاِبَاحَۃِ لِلْمُصَلِّیْ اَنْ یُّصَلِّیَ وَبَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْقِبْلَۃِ امْرَأَ ۃٌ ذَاتَ مَحْرَمٍ‘‘[2] ’’نمازی کے لیے اس حالت میں نماز پڑھنے کے مباح و جائز ہونے کا بیان جب کہ اس کے اور قبلے کے مابین نمازی کی کوئی محرم عورت ہو۔‘‘ 10۔انسان: جنھیں سُترہ بنا کر اُن کے سامنے نماز پڑھی جا سکتی ہے،ان میں سے دسویں چیز یا صورت یہ ہے کہ سامنے کسی کا کوئی ساتھی یا دوست یا کوئی بھی آدمی بیٹھا ہو تو اس کی طرف مُنہ کر کے نماز پڑھنے
Flag Counter