Maktaba Wahhabi

133 - 738
مصنف ابن ابی شیبہ و عبدالرزاق میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے آگے سے گزرنے والے عمرو بن دینار تھے۔جبکہ امام بخاری کے استاذ ابو نعیم اپنی کتاب ’’الصلاۃ‘‘ میں،ابو زرعہ اور ابن عساکر اپنی اپنی ’’تاریخِ دمشق‘‘ میں صحیح سند کے ساتھ صالح بن کیسان سے روایت کرتے ہیں: ((رَاَیْتُ ابْنَ عُمَرَ یُصَلِّیْ فِی الْکَعْبَۃِ وَلَا یَدَعُ اَحَدًا یَمُرُّ بَیْنَ یَدَیْہِ))[1] ’’میں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کو خانہ کعبہ میں نماز پڑھتے دیکھا تو وہ وہاں بھی کسی کو اپنے آگے سے گزرنے نہیں دے رہے تھے۔‘‘ ایسے ہی طبقات ابنِ سعد میں بھی صحیح سند کے ساتھ یحییٰ بن ابی کثیر سے مروی ہے: ((رَاَیْتُ اَنَسَ بْنَ مَالِکٍ دَخَلَ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ فَرَکَزَ شَیْئًا اَوْ ہَیَّاَ شَیْئًا یُصَلِّیْ اِلَیْہِ))[2] ’’میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ کو دیکھا کہ وہ مسجدِ حرام میں داخل ہوئے تو انھوں نے اپنے سامنے کوئی چیز گاڑ لی یا رکھ لی،جس کی طرف مُنہ کر کے وہ نماز پڑھتے تھے۔‘‘ ان آثار کی رُو سے مکہ مکرمہ کے ساتھ ہی مسجدِ حرام اور خانہ کعبہ بھی حکمِ سُترہ کے اطلاق میں آجاتے ہیں،لہٰذا حتی الامکان ان پر عمل کیا جائے،لیکن ازدہام وغیرہ جیسے اَسباب کی وجہ سے اس معاملے میں جو کوتاہی ہوگی،اسے عذر و مجبوری کی بنا پر اللہ معاف کرنے والا ہے،خصوصاً جبکہ ہر وقت طواف ہوتا رہتا ہے اور نماز بھی ہوتی رہتی ہے،ایسے میں سُترے کا انتظام و اہتمام قدرے مشکل ہوتا ہے۔[3] سترہ واجب ہے یا مستحب؟ مسجد اور غیر مسجد حتیٰ کہ خانہ کعبہ کے اندر بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا سُترے کا اہتمام سُترے کی اہمیت واضح کر دیتا ہے۔سُترے کی احادیث میں امر کا صیغہ آیا ہے جس سے وجوبِ سُترہ کا پتا چلتا ہے،لیکن بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا سُترہ بھی نماز پڑھی ہے،جس سے بعض اہلِ علم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ احادیث قرینہ صارفہ عن الوجوب ہیں،یعنی ان سے سُترے کے وجوب کا حکم ختم ہو جاتا ہے اور محض استحباب کا حکم باقی رہ جاتا ہے۔اُن احادیث میں
Flag Counter