Maktaba Wahhabi

161 - 738
’’بالاتفاق دل سے نیت کر لینا ہی کافی ہو جاتا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے یہی طریقہ منقول اور مسنون و ماثور ہے۔یہ کہنا کہ میں نے فلاں نماز اور فلاں وقت کی نیت کی یا کرتا ہوں تو یہ کسی ایک سے بھی منقول نہیں ہے۔‘‘ موصوف اپنے فتاویٰ میں لکھتے ہیں: ’’کَثِیْرًا مَّا سُئِلْتُ عَنِ التَّلَفُّظِ بِالنِّیَّۃِ ہَلْ ثَبَتَ ذٰلِکَ مِنْ فِعْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم وَاَصْحَابِہٖ؟فَہَلْ لَہٗ اَصْلٌ فِی الشَّرْعِ؟فَاَجَبْتُ بِاَنَّہٗ لَمْ تَثْبُتْ ذٰلِکَ مِنْ صَاحِبِ الشَّرْعِ وَلَا مِنْ اَحَدٍ مِّنْ اَصْحَابِہٖ‘‘[1] ’’کثرت سے مجھ سے یہ سوال کیا گیا کہ زبان سے نیت کے الفاظ ادا کرنا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل سے ثابت ہے یا نہیں؟کیا شریعت میں اس کی کوئی دلیل ہے؟تو مَیں نے جواب دیا کہ صاحبِ شریعت صلی اللہ علیہ وسلم اور کسی صحابی رضی اللہ سے یہ زبان سے نیت کرنا ہرگز ثابت نہیں ہے۔‘‘ 8۔ملا علی قاری رحمہ اللہ: فقہ حنفی ہی کی کتاب ’’السعایۃ في کشف ما في شرح الوقایۃ‘‘(2/ 100)میں مولانا عبدالحی رحمہ اللہ نے ملا علی قاری رحمہ اللہ کی تحقیق بھی نقل کی ہے،جس کی بنیاد دراصل علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کی کتاب ’’زاد المعاد‘‘ ہی ہے،جس کا اقتباس ہم پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں،لہٰذا اسے دہرانے کی ضرورت نہیں،البتہ اس سے حضرت ملا علی قاری رحمہ اللہ کا مروّجہ نیت کے بارے میں نظریہ سامنے آجاتا ہے۔’’السعایۃ‘‘ میں مولانا عبدالحی رحمہ اللہ نے امام ابو داود سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے امام بخاری رحمہ اللہ سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تکبیرِ تحریمہ سے پہلے(نیت کے الفاظ وغیرہ)کچھ کہتے تھے؟تو انھوں نے جواباً فرمایا:نہیں!آگے علامہ ابن قیم کی ’’إغاثۃ اللہفان‘‘ سے ان کی تحقیق بھی مولانا لکھنوی نے نقل کی ہے۔[2] 9،10۔شارح ہدایہ علامہ ابنِ ہمام اور مولانا عبدالغفور رمضان پوری رحمہ اللہ: ہدایہ کی معروف شرح فتح القدیر سے نقل کرتے ہوئے مولانا عبدالغفور رمضان پوری نے اپنے
Flag Counter