Maktaba Wahhabi

163 - 738
13۔علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ: فیض الباری میں علامہ انور شاہ کاشمیری رحمہ اللہ نے بھی اس بات کو واشگاف الفاظ میں ذکر کیا ہے کہ نیت زبان کا نہیں بلکہ دل کا فعل ہے۔چنانچہ وہ فیض الباری(1/ 8)پر لکھتے ہیں: ’’فَالنِّیَّۃُ اَمْرٌ قَلْبِیٌّ‘‘ ’’پس نیت دل کا فعل ہے۔‘‘ 14۔مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ: ماضی قریب کے معروف دیوبندی عالم مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے ’’بہشتی زیور‘‘ کے دوسرے حصے میں نماز کی شرطیں بیان کرتے ہوئے مسئلہ نمبر(11)یہ لکھا ہے کہ زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں،بلکہ دل میں اتنا سوچ لے کہ میں آج ظہر کی فرض نماز پڑھتی(یا پڑھتا)ہوں اور اگر سنتیں ہوں تو ظہر کی سنت کا خیال کر کے اللہ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے تو نماز ہو جائے گی۔جو لمبی چوڑی نیت لوگوں میں مشہور ہے،اس کا کہنا ضروری نہیں ہے۔ آگے مسئلہ نمبر(12)میں نیت کا مختصر لیکن بلاسند انداز بتایا ہے اور اسے بھی اختیار پر چھوڑ دیا ہے کہ یہ سب کہنا بھی ضروری نہیں ہے،چاہے کہے چاہے نہ کہے،جبکہ اس اختیار کی کوئی دلیل نہیں ہے،جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے۔بہشتی زیور کے حاشیے میں مروّجہ نیت کے بارے میں واضح طور پر لکھا ہے: ’’لوگ نماز میں لمبی چوڑی نیت کرتے ہیں،یہاں تک کہ امام قراء ت پڑھنے لگتا ہے اور ان کی نیت ختم نہیں ہوتی،ایسا کرنا برا ہے۔‘‘[1] یاد رہے کہ اس حاشیے کو خود مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے بنظرِ استحسان دیکھا ہے،بلکہ بہشتی زیور کے حصّہ اوّل کی فہرست سے آگے والے صفحہ پر ’’اطلاعات متعلق نسخہ حاضرہ بہشتی زیور و بہشتی گوہر‘‘ کے زیر عنوان موصوف نے لکھا ہے کہ اس نسخے پر برخوردار مولانا شبیر علی کا اہلِ علم سے نظر ثانی کروانا اور اس نظر ثانی میں بعض مقامات پر عبارات یا مضامین کی ترمیم ہو جانا اور اسی طرح ہر مسئلے کے اخیر میں کتابوں کا حوالہ لکھوانا،یہ سب میرے مشورے اور اطلاع سے ہوا ہے۔مقاماتِ ترمیم میں قریب قریب کُل کے،بالالتزام میں نے بھی نظر ثانی کی ہے۔اب یہ نسخہ بہمہ وجوہ بفضلہ تعالیٰ مکمل و مدلل ہو گیا ہے۔[2]
Flag Counter