Maktaba Wahhabi

189 - 738
’’یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ یہ رفع الیدین ایسی سنت ہے جس میں مَرد وزن دونوں مشترک ہیں۔ایسی کوئی حدیث وارد و ثابت نہیں ہے جو ان کے مابین اس معاملے میں فرق کرنے پر دلالت کرتی ہو اور نہ ایسی کوئی حدیث ملتی ہے جو مَرد و زن کے مابین ہاتھ اٹھانے کی مقدار پر دلالت کرتی ہو۔احناف سے مروی ہے کہ مَرد کانوں تک اور عورت کندھوں تک ہاتھ اٹھائے،کیونکہ یہ عورت کے لیے زیادہ پردے کا باعث ہے۔لیکن(ان کے پاس)اس کی کوئی دلیل نہیں ہے،جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے۔‘‘ نتیجہ: اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ہدایہ(1/ 64)کبیری(ص:300)اور شرح وقایہ(1/ 72)بحوالہ نمازِ مسنون صوفی عبدالحمید سواتی(ص:316)شرح وقایہ،کنز الدقائق،ردّ المحتار یعنی فتاویٰ شامی،فتاوی قاضی خان،فتاویٰ عالمگیری[1] اور السعایہ حاشیہ وقایہ[2] وغیرہ میں جو عورت کو صرف کندھوں تک ہاتھ اٹھانے کا مشورہ دیا گیا ہے،اس کی کوئی صحیح دلیل نہیں ہے۔یہ دلیل کی عدم موجودگی کی وجہ ہی ہے کہ اس مشورے کے باوجود ان کتب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’’اگرچہ کان تک بھی عورت کا ہاتھ اٹھانا جائز ہے۔‘‘[3] یہی صحیح ہے۔پہلا مشورہ ہمارے نزدیک ایک بہت بڑی جسارت ہے،کیونکہ جب قرآن و حدیث اس معاملے میں خاموش ہیں تو پھر کسی فقیہ و مجتہد یا مفتی و عالمِ دین کو اس بات کا کہاں حق پہنچتا ہے کہ وہ از خود ایسی من مانی تفریق کا دین میں اضافہ کرے۔ یہ مسئلہ مطلق ہے،اسے مطلق ہی رہنے دیں کہ کوئی ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھائے یا کانوں تک،ہر طرح سے ثابت ہے۔بعض معاصرین نے مذکورہ مشورے کو ثابت کرنے کے لیے بڑے ہاتھ پاؤں مارے ہیں اور ایک مرفوع روایت تلاش کر ہی لی ہے جسے ’’کنز العمال‘‘(7/ 307)میں شیخ علی متقی ہندی نے طبرانی کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ سے مروی ہے:
Flag Counter