Maktaba Wahhabi

198 - 738
صحابیِ رسول کی اس تفسیر سے اس بات کا پتا چلتا ہے کہ رفع یدین کے وقت دونوں ہتھیلیوں کو قبلے کی طرف رکھنا چاہیے،تبھی جا کر ہاتھوں کی پشتیں کندھوں کے برابر آسکتی ہیں۔’’الفقہ علی المذاہب الأربعۃ‘‘ میں لکھا ہے کہ مالکی فقہا کے نزدیک تو ہتھیلیوں کو آسمان کی طرف کرنا چاہیے،جبکہ حنفی،شافعی اور حنبلی فقہا(جمہور علماء امت)کے نزدیک ہتھیلیوں کو قبلے کی طرف کرنا چاہیے۔حضرت وائل بن حجر رضی اللہ سے مروی تفسیر اسی کیفیت کی دلیل ہے۔ اب پھر یہاں ذرا اس شخص کے فعل پر نظر ثانی کر لیں جو تکبیر تحریمہ کہتے اور رفع یدین کرتے وقت اپنے کانوں کو انگشت ہائے شہادت اور انگوٹھوں سے پکڑ لیتا ہے۔اس کی ہتھیلیاں نہ تو مالکی مسلک کے مطابق آسمان کی طرف رہتی ہیں اور نہ دیگر تینوں مسالک کے فقہا اور جمہور علماء امت کے مسلک کے مطابق قبلے کی طرف رہ سکتی ہیں،بلکہ اس انداز سے تکبیرِ تحریمہ کہنے اور رفع یدین کرنے سے اس کی ہتھیلیاں صرف اس کے اپنے ہی کانوں یا چہرے کی طرف ہوتی ہیں،یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی جنوب کی طرف اور بائیں کی شمال کی طرف ہوتی ہے،جبکہ یہ اندازِ رفع یدین کسی سے بھی ثابت نہیں۔لہٰذا تکبیرِ تحریمہ اور رفع یدین کا وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاے راشدین رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے یا جمہور علماء امت کا اختیار کردہ ہے۔ رفع یدین کی حکمتیں: تکبیر تحریمہ کے ساتھ رفع یدین کرنے کی کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں: 1۔ علما کی ایک جماعت نے پہلے طریقے کے مطابق تکبیرِ تحریمہ اور رفع یدین کے بیک وقت کرنے کی حکمت یہ لکھی ہے کہ اس طرح جوبہرہ ہوگا،وہ رفع یدین ہوتی دیکھ لے گا اور جو اندھا ہو گا وہ تکبیر کی آواز سن لے گا(یوں سب لوگ جماعت کی صورت میں بیک وقت نماز کا آغاز کر سکیں گے)۔ 2۔ علماء احناف میں سے صاحب ِ ہدایہ علامہ مر غینانی نے پہلے رفع یدین کرنے اور پھر تکبیر کہنے کی صورت کو صحیح تر قرار دیا ہے اور اس کی حکمت بیان کرتے ہوئے لکھا ہے: ’’رفع یدین(ہاتھوں کو اٹھانا)غیر اللہ سے صفت ِ کبریائی کی نفی کرنا ہے اور تکبیر کہنا اللہ کے لیے کبریائی کی صفت کو ثابت کرنا ہے۔نفی،اثبات سے پہلے ہوگی۔جیسے کلمہ ’’لاَ إِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ‘‘ میں پہلے ہر غیر اللہ سے الوہیت کی نفی اور پھر صرف اللہ کے لیے اس کا اثبات ہے۔‘‘
Flag Counter