Maktaba Wahhabi

201 - 738
ہے۔البتہ نفلی نماز میں طولِ قیام کی وجہ سے ہاتھ چھوڑنے کو مباح قرار دینے کی روایت بھی امام مالک رحمہ اللہ سے ملتی ہے۔ابن الحاجب کی نقل کے مطابق راحت کے حصول کی غرض سے ہاتھ باندھیں تو مکروہ ہے۔موطا امام مالک کی معروف شرح زرقانی میں لکھا ہے کہ فرض نماز میں ہاتھوں کو لٹکانا امام صاحب کے نزدیک مکروہ تھا۔[1] امام مالک رحمہ اللہ کا دوسرا قول اور جمہور اہلِ علم کا مسلک: امام مالک رحمہ اللہ سے دوسرے قول کی روایت بھی ملتی ہے کہ ہاتھوں کو کھلے نہیں چھوڑنا چاہیے،بلکہ ایک دوسرے پر باندھنا چاہیے،جیسا کہ تین ائمہ سمیت جمہور اہلِ سنت کا مسلک ہے۔چنانچہ مالکیہ میں سے اشہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے کہ نفل اور فرض ہر دو طرح کی نماز میں دونوں ہاتھوں کو باندھنے میں کوئی حرج نہیں۔امام مالک کے مدنی اصحاب نے بھی ان سے یہی قول روایت کیا ہے کہ نماز میں ہاتھ باندھ کر ہی کھڑے ہونا چاہیے،جبکہ مطرف اور ابن الماجشون نے امام مالک سے نہ صرف ہاتھ باندھنے کا قول روایت کیا ہے،بلکہ کہا ہے کہ امام مالک ہاتھ باندھنے کو مستحسن قرار دیتے یا اچھا سمجھتے تھے۔ابن المنذر نے امام مالک سے صرف یہی قول روایت کیا ہے،دوسرا ہاتھ لٹکانے(ارسال)والا قول بیان ہی نہیں کیا۔ علامہ ابن عبدالبر نے کہا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں مخالف حدیث نہیں ملتی اور جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کا یہی قول و عمل ہے۔امام مالک رحمہ اللہ نے اپنے موطا میں صرف یہی ذکر کیا ہے۔نیز ’’التقصي‘‘ میں علامہ ابن عبدالبر لکھتے ہیں کہ نماز میں ہاتھوں کو ایک دوسرے پر باندھنے والی بات مجمع علیہ امر ہے۔[2] یہ ایک مالکی بلکہ مالکیہ کے بہت بڑے اور معروف علامہ ابن عبدالبر کے الفاظ ہیں،جنھیں ایک دوسرے فاضل زرقانی نے موطا امام مالک کی شرح میں نقل کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے ’’فتح الباری‘‘
Flag Counter