Maktaba Wahhabi

221 - 738
راوی کے بارے میں کہا ہے:’’فِیْہِ نَظَرٌ‘‘ کہ یہ راوی محلِ نظر ہے اور نصب الرایۃ(1/ 314)میں امام زیلعی نے بھی یہ لکھا ہے۔امام ابن ہمام حنفی نے ’’التحریر‘‘ میں کہا ہے: ’’إِذَا قَالَ الْبُخَارِیُّ لِلرَّجُلِ:فِیْہِ نَظَرٌ فَحَدِیْثُہٗ لَا یُحْتَجُّ بِہٖ وَلَا یُسْتَشْہَدُ بِہٖ وَلَا یَصْلُحُ لِلْاِعْتَبَارِ‘‘[1] ’’جس آدمی کے بارے میں امام بخاری ’’فِیْہِ نَظَرٌ‘‘ فرما دیں تو اس(راوی)کی حدیث قابلِ حجت ہوتی ہے نہ اس کی حدیث سے شہادت لی جا سکتی ہے اور نہ وہ حدیث قابلِ اعتبار ہوتی ہے۔‘‘ علماء احناف کی کتب میں امام بخاری کے الفاظ کی اس تشریح سے معلوم ہو گیا کہ حضرت علی رضی اللہ سے مروی یہ روایت نہ تو قابلِ حجت و استدلال ہے اور نہ یہ کسی دوسری حدیث کی شاہد بننے کے قابل ہے اور نہ اس کا کوئی اعتبار ہی کیا جائے گا۔ حدیثِ علی رضی اللہ کا منسوخ ہونا: ضعیف ہونے کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ سے مروی زیرِ ناف ہاتھ باندھنے والی وہ روایت احناف کے ایک اصول کی رو سے منسوخ بھی ہے۔چنانچہ علماء احناف میں سے ’’الدرۃ في إظہار غش نقد الصرہ‘‘ کے مولف لکھتے ہیں کہ سنن ابو داود میں حضرت جریر الضبی رحمہ اللہ سے مروی ہے: ((رَاَیْتُ عَلِیًّا یُمْسِکُ شِمَالَہٗ بِیَمِیْنِہٖ عَلَی الرُّسْغِ فَوْقَ السُّرَّۃِ))[2] ’’میں نے حضرت علی(رضی اللہ)کودیکھا کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ کو دائیں سے پکڑتے اور دائیں کو بائیں کے گٹ پر رکھتے ہوئے ناف کے اوپر رکھتے۔‘‘ اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے علماء کا ایک اصول ہے کہ جب کوئی صحابی عملاً اپنی روایت کی خلاف ورزی کرے تو اس کا عمل اس کی بیان کردہ روایت کے منسوخ ہونے کی دلیل ہوگا۔حضرت علی رضی اللہ کے اس عمل کا پتا دینے والی یہ روایت ان کی بیان کردہ روایت سے اگر زیادہ قوی نہیں تو اس سے کچھ کم بھی نہیں ہے۔[3]
Flag Counter