Maktaba Wahhabi

230 - 738
والے اڈیشنوں میں یہ دونوں لفظ نہیں تھے۔[1] مولانا محمد داود راز دہلوی کے اردو ترجمہ بخاری شریف کے نماز سے متعلقہ حصے ’’کتاب الصلاۃ‘‘ کو مولانا کرم الدین سلفی رحمہ اللہ نے دار القرآن کراچی سے اپنی مفصل تعلیقات کے ساتھ الگ کتابی شکل میں شائع کیا تھا۔اس(ص:307)میں ایک تعلیق حضرت العلام مولانا ابو محمد سید بدیع الدین شاہ صاحب راشدی رحمہ اللہ پیر آف جھنڈا کے حوالے سے لکھی گئی ہے،جس میں حضرت پیر آف جھنڈا فرماتے ہیں کہ مصنف ابن ابی شیبہ(کا مخطوطہ اور اس)کے دونوں مطبوعہ نسخے ہمارے پاس موجود ہیں،لیکن ان میں سے کسی میں بھی یہ اضافہ یعنی’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘(زیر ناف)کے الفاظ نہیں ہیں۔[2] یہ ہے مصنف ابن ابی شیبہ میں وارد حدیثِ حضرت وائل رضی اللہ کی اصل اور ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ اضافی الفاظ کی حقیقت،جس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ حدیث اس اضافے کے ساتھ ناقابل استدلال ہے۔البتہ اس اضافے کے بغیر یہ حدیث جید سند والی ہے۔جیسا کہ عون المعبود(2/ 462)تحفۃ الاحوذی(2/ 47۔84)اور المرعاۃ(2/ 301)علماء حدیث اور علماء احناف سے منقول ہے۔محض کسی حدیث کی سند کا صحیح اور قوی ہونا اس بات کو لازم نہیں کر دیتا کہ اس کا متن بھی صحیح و قوی ہو۔جس کا ثبوت مصنف ابن ابی شیبہ کی ’’تَحْتَ السُّرَّۃِ‘‘ کے اضافے والی ہی حدیث ہے۔فَلْیَتَّامَّلْ! ’’نماز مسنون‘‘(ص:319)میں صوفی عبدالحمید سواتی نے جب یہ حدیث نقل کی تو ساتھ طبع کراچی کا حوالہ بطورِ خاص دیا۔دیگر سینکڑوں جگہوں پر مصنف ابن ابی شیبہ کا حوالہ آیا،لیکن رطب ویابس کے 837 صفحات پر مشتمل مجموعے میں دوسری کسی بھی جگہ کراچی نہیں آیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صوفی صاحب نے بھی کنوئیں سے باہر نہیں نکلنا چاہا اور پھر جب انھوں نے شوق نیموی کی ’’آثار السنن‘‘ سے تصحیح نقل کی تھی تو کم از کم اُسی کے حاشیے ’’التعلیق الحسن‘‘ سے اس اضافے کا ضعف بھی نقل کر دیتے اور انہی کی کتاب ’’الدرۃ الضرۃ‘‘ سے اس کی محفوظیت اور معلولیت نقل کر دیتے۔مگر بسا آرزو کہ خاک شدہ۔۔!!؟ چھٹی دلیل: زیر ناف ہاتھ باندھنے کے دلائل کے طور پر بعض تابعین کے دو آثار بھی پیش کیے جاتے ہیں،
Flag Counter