Maktaba Wahhabi

231 - 738
جن میں سے پہلا اثر مصنف ابن ابی شیبہ میں ہی ہے جس میں حجاج بن حسان رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو مجلز سے پوچھا: ((کَیْفَ اَضَعُ؟))’’میں ہاتھ کیسے باندھوں؟‘‘ اس پر حضرت ابومجلز نے فرمایا: ((یَضَعُ بَاطِنَ کَفِّ یَمِیْنِہٖ عَلٰی ظَاہِرِ کَفِّ شِمَالِہٖ،وَیَجْعَلُہُمَا اَسْفَلَ السُّرَّۃِ))[1] ’’اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے نیچے والے حصے کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے اوپر والے حصے پر رکھ کر ناف کے نیچے باندھیں۔‘‘ یہ محض ایک تابعی کا اثر ہے۔صحابی کا عمل ہے اور نہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔پھر جب اس اثر کی نفی کرنے والی صحیح احادیث موجود ہیں تو ان کے مقابلے میں کسی تابعی کے قول کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے؟[2] ساتویں دلیل: ایک دوسرا اثر بھی پیش کیا جاتا ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ ہی میں مروی ہے،جس میں حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((یَضَعُ یَمِیْنَہٗ عَلٰی شِمَالِہٖ فِی الصَّلَاۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ))[3] ’’وہ نماز میں اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں کے اوپر ناف کے نیچے رکھے۔‘‘ یہ بھی صغار تابعین میں سے ایک تابعی کا قول ہے جو مرفوع حدیث کے مخالف ہونے کی وجہ سے لائقِ التفات نہیں ہے۔یہاں یہ بات بھی پیش نظر رکھیں کہ اگر کسی مسئلے میں کوئی مرفوع حدیث موجود ہو جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت بیان کی گئی ہو یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ارشاد بتایا گیا ہو،تو اس کی تائید و شواہد کے طور پر دیگر احادیث اور صحابہ و تابعین کے آثار ذکر کیے جاتے ہیں یا پھر کسی مسئلے میں کوئی واضح نص نہ مل رہی ہو تو آثارِ صحابہ و تابعین سے استفادہ کیا جاتا ہے،لیکن اگر کسی صحیح مرفوع حدیث میں ایک بات آجائے تو تابعین کے آثار کی اس وقت کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی،بلکہ وہ
Flag Counter