Maktaba Wahhabi

255 - 738
صحیح سند لیکن مرسل حدیث میں ان تینوں الفاظ کی تفسیر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یوں مروی ہے: ((اَمَّا ہَمْزُہٗ فَہٰذِہِ الْمُوْتَۃُ الَّتِیْ تَاْخُذُ بَنِیْ آدَمَ،وَاَمَّا نَفْخُہٗ فَالْکِبْرُ،وَاَمَّا نَفْثُہٗ فَالشِّعْرُ))[1] ’’شیطان کے ’’ہمز‘‘ سے مراد مرگی اور جنون جیسی کیفیت ہے جو بنی آدم پر طاری ہو جاتی ہے،اور اس کے ’’نفخ‘‘ سے مراد تکبر اور ’’نفث‘‘ سے مراد مذموم شعر گوئی پر اکسانا ہے۔‘‘ اندازہ فرمائیں ان کلمات پر مشتمل تعوذ روحانی و جسمانی بیماریوں سے شفا کی دعا بھی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تعوذ کے ثابت شدہ تین انداز یا صیغے ہم با دلائل تفصیلاً ذکر کر چکے ہیں،لیکن آپ نے اندازہ لگا لیا ہو گا کہ یہ تینوں انداز ہی بہت کم مروّج اور شاذ و نادر ہی معمول بہ ہیں۔ چوتھا صیغہ: جو صیغہ سب کے یہاں معمول بہٖ ہے،اسے آپ چوتھا اندازِ تعوذ یا صیغہ کہہ لیں،جو صرف ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطَانِ الرَّجِیْمِ‘‘ کے الفاظ پر مشتمل ہے۔اس کے بارے میں امام رافعی نے لکھا ہے کہ بعض احادیث میں ان الفاظ سے بھی تعوذ وارد ہوا ہے۔اور حافظ ابن حجر عسقلانی نے ’’التلخیص الحبیر في تخریج أحادیث الرافعي الکبیر‘‘ میں ان کی موافقت کی ہے کہ انھوں نے جو کہا ہے،وہ ویسے ہی ہے اور ایسا صیغہ اس کتاب میں گزرا بھی ہے۔انھوں نے مزید لکھا ہے کہ مراسیل ابو داود میں امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان الفاظ میں تعوذ فرماتے تھے۔[2] حافظ ابن حجر جیسے بلا کا حافظہ رکھنے والے شخص سے بھی یہاں چُوک ہو گئی ہے،کیونکہ ان الفاظ سے پہلے حضرت جبیر بن مطعم رضی اللہ والی حدیث ہے۔اس میں جو تعوذ ہے،اس کے آخر میں یہ تین الفاظ بھی مروی ہیں:’’مِنْ نَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ وَہَمْزِہٖ‘‘ پھر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ والی حدیث ہے جس کے درمیان میں ’’السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ‘‘ اور آخر میں ’’مِنْ ہَمْزِہٖ وَنَفْخِہٖ وَنَفْثِہٖ‘‘ کے کلمات بھی موجود ہیں،اس کے بعد حضرت ابو امامہ رضی اللہ والی حدیث ہے جس کے بارے میں لکھا ہے کہ اس میں تعوذ یوں مروی ہے: ’’اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ‘‘
Flag Counter